سٹی 42: ٹڈی دل دیہات میں آفت بن کر ٹوٹی ہے،جہاں بھی گئی فصلوں،درختوں،باغات کو چٹ کرگئی ، پاکستان کے تقریباٰ 61 اضلاع میں اس کی موجودگی پائی گئی ہے، چیئرمین این ڈی ایم اے کے مطابق ان تمام اضلاع میں تدارک کا کام شروع کردیا گیا۔
سندھ میں شہریوں نے ٹڈیوں سے مزیدار ڈشز بنانے کا کام کیا تو پنجاب کے رہنے والوں نے اسے کاروبار بنا لیا ہے،اوکاڑہ میں ایک تنظیم کی طرف سے ٹڈی کے تدارک کا تجربہ بہت کامیاب رہا ہے، انہوں نے لوگوں سے بیس روپے فی کلو کے حساب سے ٹڈیاں خرید کر مرغیوں اور مچھلیوں کی خوراک بنانے والے کارخانوں کو بیچی ہیں۔ صرف ایک رات میں ٹڈیاں اکٹھیاں کرنے والوں نے فی بندہ بیس ہزار روپے کمائے ہیں۔
حساب لگایا تو ایک بندہ تیس دنوں میں تقریباً چھ لاکھ روپیہ کما سکتا ہے۔ ٹڈی صرف دن کو پرواز کرتی ہے، رات کے وقت یہ درختوں یا زمین پر جھنڈ کی شکل میں اکٹھا ہو جاتی ہے اور بےحس و بےحرکت ہوتی ہے لہذا اسے پکڑ کر تھیلوں میں اکٹھا کرنا بہت ہی آسان ہے۔
پاکستان امریکا سے سویابین درآمد کرتا ہے جس کا تیل نکالنے کے بعد اسکا بُھس مرغیوں کی خوراک بنانے والی کمپنیاں خریدتی ہیں۔ سویا بین کے بھس میں پروٹین کی مقدار پینتالیس فیصد ہوتی ہے جبکہ ٹڈی میں پروٹین کی مقدار ستر فیصد ہوتی ہے جو مرغیوں اور مچھلیوں کے لئے نہایت قوت بخش غذا ثابت ہو گی،مرغیوں کی خوراک کے لئے سویا بین کے بجائے ٹڈی کے استعمال سے زرمبادلہ کی بچت بھی ہو گی، مرغیوں کی خوراک کے لئے ٹڈی کو خشک کرکے پائوڈر بنانے کا خرچہ ملا کر اسکی کل قیمت تیس روپیہ فی کلو پڑتی ہے جو سویا بین کی نوے روپے کلو قیمت سے کہیں کم ہے۔
کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے بیروزگار افراد کے لئے ٹھیک ٹھاک آمدنی کا یہ بہترین موقع ہے، اس سے معیشت کو بھی سہارا ملے گا، لوگوں کو روزگار بھی میسر ہو گا، فصلیں بھی نقصان سے بچیں گی، زر مبادلہ کی بچت بھی ہو گی، پولٹری فیڈ بنانے والوں کو سستا خام مال میسر ہو گا،ٹڈی کو تلف کرنے کے لئے حکومت کوکیڑے مار کیمیکلز اسپرے کے اخراجات بچانے میں مدد ملے گی اور ماحول کی بھی ان زہریلے کیمیکلز کے اثرات سے بچت ہو گی۔ حکومت کو چاہیئے کہ فوری طور اس منصوبے کو ضلعی انتظامیہ کی مدد سے نافذ کرے کہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔