توہین عدالت کیس ،عدالت نے عمران خان کو نیا حکم دے دیا

imran khan Islamabad, high court
کیپشن: imran khan
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک:اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجربینچ سماعت کررہا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالتی حکم پرذاتی حیثیت میں پیش ہوگئے۔اٹارنی جنرل اشترو اوصاف ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال عدالت ، عمران خان کی لیگل ٹیم ،بابر اعوان ، اعظم سواتی اوردیگر سمیت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا تحریری جواب پڑھ لیا ہے جو کہا گیا توقع نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا حامد خان صاحب آپ عمران خان کے وکیل ہونگے ؟ ہمیں بہت خوشی ہے اس اہم معاملے میں آپ یہاں وکیل ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ مجھے ایسے بیانات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی، آپ کےموکل کا ماتحت عدلیہ کے بارے میں بیان کی توقع نہ تھی،ماتحت عدلیہ ایلیٹس کی عدلیہ نہیں اسے اہمیت دینےکی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 70 سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں ہے ، کم از کم جو جن حالات میں رہ رہے ہیں وہ بھی دیکھنا چاہیے، میں توقع کر رہا تھا احساس ہو گا کہ غلطی ہو گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن مشکل حالات میں ضلع کچہری میں ججز کام کررہے ہیں وہ سب کےسامنے ہیں، میں یہ توقع کررہا تھا کہ اس پر شرمندگی اورافسوس کیا جائے گا لیکن جس طرح گزرا وقت واپس نہیں آتا زبان سے کہے الفاظ واپس نہیں ہوتے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے فالوورز ہوتے ہیں کچھ کہتے ہوئےسوچنا چاہیے ، گزشتہ 3سال میں بغیر کسی خوف کے ہم نے ٹارچر کا ایشو اٹھایا ہے، ماتحت عدلیہ کو اہمیت دینی ہے، عمران خان کےتحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر تسلی نہیں ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان کوکریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے کہنے پرجوڈیشل کمپلیکس بنایا، عمران خان اس عدلیہ کے پاس جاکر اظہار کرتے کہ انہیں عدلیہ پر اعتماد ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ عمران خان کے اس الفاظ میں ایک خاتون جج کو دھمکی دی گئی، تحریری جواب میں ہمیں جو امید نظر آرہی تھی، وہ نہیں ملی۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 3سال میں یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی کاش اسوقت بھی آواز اٹھاتے ، آپ کے جواب سے اندازہ ہوا کہ عمران خان کو احساس نہیں ، جواب سے لگتا ہے عمران خان کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ؟

دوران سماعت اسلام آبادہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا آپ خاموش رہیں یہ عدالت اور مبینہ توہین عدالت کے ملزم کامعاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمے میں کہا کہ آپ اپنے آپ کو صرف عمران خان کا وکیل نہ سمجھیں، آپ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں۔شہباز گل ٹارچر کیس پر اسلام آبادہائیکورٹ نے حکم جاری کیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا عمران خان کے سارے بیانات ریکارڈ پر لے آتاہوں۔

عدالت کی شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی ، شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ ٹارچر کی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کوبغیرمیڈیکل داخل کرتےہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا یہ پٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ سےکب نمٹائی گئی اورتقریر کب کی گئی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی۔

چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا آپ نے توہین عدالت معاملے پر فردوس عاشق اعوان کی ججمنٹ پڑھی ہو گی، پیکا آرڈیننس کے تحت اداروں پر تنقید کرنیوالوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملناتھی،اس عدالت نے اس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے پہلے جواب پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا عمران خان کو جواب جمع کرانے کا ایک اور موقع دیتے ہیں۔ عدالت نے عمران خان کو 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس نے وفاق کے نمائندے کو ہدایت کی کہ آپ بھی بغاوت اور غداری کے کیسز پر نظرثانی کریں، آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے،ہم نے ایک کیس میں فواد چوہدری کو بتایا کہ وہ نمبر عدلیہ کانہیں ایگزیکٹو کاتھا، پولیس آرڈر کونافذ کرنے کا حکم دیا اور وفاقی حکومت نے اس میں مزاحمت کی۔

عدالت نے منیر اے ملک ، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل کو عدالتی معاون مقرر کردیا ، اٹارنی جنرل نے کہا عمران خان کے جواب کی پیشگی نقول عدالتی معاونین کوفراہم کرنےکا کہا جائے۔

عمران خان کے وکیل نے فواد چوہدری کے بیانات سے لاتعلقی کردی بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت 8ستمبر تک ملتوی کردی۔گذشتہ روز عمران خان توہین عدالت کےشوکازنوٹس کاجواب عدالت میں جمع کرا چکےہیں۔

ایڈووکیٹ حامدخان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں عمران خان نے خاتون جج زیبا چوہدری سےمتعلق الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی۔جواب میں کہا گیا تھا کہ عمران خان ججوں کے احساسات مجروح کرنے پر یقین نہیں رکھتے ، انھوں نے پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی ہے اور آزاد عدلیہ پر یقین رکھتے ہیں، عدالت تقریر کا سیاق وسباق کے ساتھ جائزہ لے۔

عمران خان نے جواب میں توہین عدالت کا شو کاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی تھی۔