انڈیا دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی کا ملک، امریکی توجہ کا مرکز بن گیا

India becomes World\'s SecondLatgest Muslim Population
کیپشن: Muslim Population in India
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)امریکہ میں قائم پیو ریسرچ سینٹر نے اندازہ لگایا ہے کہ 2020 میں انڈیا انڈونیشیا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک بن چکا ہے جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ پیو ریسرچ سنٹر کے تخمینےانڈیا میں اور پاکستان کی کچھ سال پرانی مردم شماری کے اعداد و شمار پر مبنی ہیں۔

پاکستان کی 2017 کی مردم شماری میں، کچھ صوبوں (سندھ اور بلوچستان)  میں کچھ افراد کے شمار ہونے سے رہ جانے جیسے مسائل کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہیں۔

پیو ریسرچ میں مذہب کے ایک ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کونراڈ ہیکیٹ کہتے ہیں، ’پاکستان کے بارے میں کچھ غیر یقینی صورتحال ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں اب انڈیا کے مقابلے قدرے زیادہ مسلمان ہوں۔‘ 

 بھارت کے دنیا میں مسلم آبادی والا دوسرا بڑا ملک بن جانے کے تخمینہ کو ہندو امتہا پسند اپنے مسلم مخالف پروپیگنڈا میں کسی اور طرح برت رہے ہیں جبکہ انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنے امریکہ دورہ کے دوران انڈیا میں مسلم آبادی کی تناسب کی اہمیت کم ظاہر کرنے کی کوشش کی،سیتا رمن نے ان باتوں کو مسترد کیا کہ بی جے پی حکومت میں اب مسلمانوں کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ نرملا سیتا رمن نے مسلم اقلیت کے تئیں بڑھتی ہوئی دشمنی کی خبروں کا حوالہ دیا، اور تجویز کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ نہ ہوتا۔

نرملا سیتا رمن نے انڈیا کے دوسرا بڑا مسلمانوں کی آبادی والا ملک بن جانے کی اہمیت کم کرنے کے لئے  یہ دلچسپ دعویٰ بھی کیا کہ مسلمانوں کی طرح انڈیا کے باقی مذاہب کے پیروکاروں کی آبادی بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موثر فیملی پلاننگ کے باعث انڈیا میں مسلمانووں کی آبادی میں شرح اضافہ اب ہندووں کے مقابلہ میں کم ہے۔ اگر آپ شرح نمو پر نظر ڈالیں، یعنی وقت کے ساتھ آبادی کے سائز کے تناسب میں تبدیلی، یہ 1991 سے مسلمانوں کے لیے اور عام آبادی کے لیے بھی کم ہو رہی ہے۔ سنہ 2019 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بڑے مذہبی گروہوں میں مسلم آبادی میں شرح پیدائش سب سے زیادہ ہے جو کہ بچہ پیدا کرنے کی عمر کی فی عورت پیدائش کی اوسط تعداد ہے۔لیکن اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اس میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔

درحقیقت مسلمانوں میں آبادی گھٹنے کی شرح ہندوؤں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور یہ 1992 میں 4.4 سے کم ہوکر 2019 میں 2.4 رہ گئی ہے۔

نرملا سیتا رمن درست کہتی ہیں کہ انڈیا کی مسلم آبادی، قطعی تعداد میں بڑھ رہی ہے لیکن انڈیا کی آبادی میں مجموعی طور پر اضافے کے نتیجے میں دیگر تمام مذہبی گروہوں میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔اگر آپ اس کے بجائے شرح نمو پر نظر ڈالیں، یعنی وقت کے ساتھ آبادی کے سائز کے تناسب میں تبدیلی، یہ 1991 سے مسلمانوں کے لیے اور عام آبادی کے لیے بھی کم ہو رہی ہے۔ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا سے تعلق رکھنے والی سنگھمترا سنگھ کا کہنا ہے کہ شرح پیدائش میں تبدیلی سماجی و اقتصادی عوامل سے ہوتی ہے اور اس کا تعلق مذہبی وابستگی سے نہیں ہوتا۔ وہ کہتی ہیں ’فرٹیلیٹی کی شرح میں کمی تعلیم، روزگاراور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک بہتر رسائی کا نتیجہ ہے۔‘پھر بھی، کچھ ہندو گروپس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاست دانوں نے مسلم آبادی میں اضافے کے بارے میں گمراہ کن دعوے جاری رکھے ہوئے ہیں، اور بعض صورتوں میں، ہندوؤں کو زیادہ بچوں کو جنم دینے کا مشورہ بھی دیا جا رہا ہے۔

ماہرین نے بڑے پیمانے پر اس خیال کو مسترد کر دیا ہے کہ آخرکار مسلمان انڈیا میں ہندو اکثریت سے زیادہ ہو سکتے ہیں، جو اس وقت انڈیا کی آبادی کا تقریباً 80 فیصد ہے۔

درحقیقت، خاندانی بہبود کے پروگرام کا جائزہ لینے والی قومی کمیٹی کے سابق چیئرپرسن دیویندر کوٹھاری نے مستقبل کے مختلف منظرنامے کی پیش گوئی کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شرح افزائش میں ریکارڈ کمی کی بنیاد پر، ہندوؤں کی آبادی کا تناسب درحقیقت اگلی مردم شماری میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے بڑھ چکا ہوگا۔

ابھارت میں  مسلمانوں پر تشدد اور قتل کے واقعات کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے اچھی طرح سے دستاویزی شکل دی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے ’مذہبی اور دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اپنا منظم امتیازی سلوک اور بدنامی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن آزاد محققین اور تنظیموں نے نفرت پر مبنی جرائم میں کافی اضافے کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔