بھارت کے 26 جماعتی اپوزیشن اتحاد نے مودی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا

Opposition alliance in India decides to table a no-confidence motion against Prime Minister Narendra Modi, 24News
کیپشن: راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے کے چیمبر میں، انڈیا اتحاد سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کے لیے ایک بحث میں حصہ لے رہے تھے لیکن مودی نے ان کو کسی بحث کا موقع دینے سے پہلے اجلاس ہی ملتوی کر دیا جس سے نہ صرف اپوزیشن سیاستدانوں بلکہ عام ووٹرز میں بھی غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: بھارت میں اپوزیشن جماعتوں 26 جماعتی اتحاد انڈین نیشنل ڈویلپمنٹل انکلیوسو الائنس (انڈیا) نے  وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں گزشتہ دو ہفتے سے مودی سے منی پور میں جاری خانہ جنگی پر لوک سبھا میں بحث کروانے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

مودی سرکار حیلے بہانوں سے منی پور فسادات پر پارلیمنٹ میں بحث کروانے سے گریزاں ہے۔

گزشتہ روز راجیہ سبھا کے 50 ارکان کی طرف سے منی پور خانہ جنگی کے خلاف قرارداد پیش کئے جانے پر مودی سرکار نے اجلاس ہی برخاست کر دیا تھا۔

اجلاس کی غیر آئینی برخاستگی پر اپوزیشن رہنماؤں کا پارلیمنٹ کے باہر گاندھی کے مجسمے کے ساتھ دھرنا گزشتہ روز سے جاری ہے۔

اپوزیشن کو دباؤ میں لانے کیلئے مودی سرکار نے عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ کی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی معطل کر دی۔

 اپوزیشن رہنما ملیکارجن کھرگے کا کہنا ہے کہ مودی کو ذاتی انا سے بالاتر ہو کر ملک کا سوچنا چاہیے۔

25 جولائی 2023 کو، نئی دہلی میں، راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے کے چیمبر میں، انڈیا اتحاد سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کے لیے ایک بحث میں حصہ لے رہے تھے لیکن مودی نے ان کو کسی بحث کا موقع دینے سے پہلے اجلاس ہی ملتوی کر دیا جس سے نہ صرف اپوزیشن سیاستدانوں بلکہ عام ووٹرز میں بھی غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت کی مشرقی ریاست میں دو قبائل کے درمیان دو ماہ سے جاری خونریز تصادم میں  اب تک 120 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، بہت سی املاک جلا دی گئیں اورر پشاس ہزار سے زائد افراد کو جان بچانے کے لئے پڑوسی ریاستوں میں نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ منی پوری مین اکثریتی متیتی قبیلی کی بیشتر آبادی کا تعلق ہندو مذہب سے ہے، ریاست کا وزیراعلیٰ بھی اسی نسلی گروہ سے تعلق رکھتا ہے  اورر اس کی جماعت مرکز میں نریندر مودی کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتحادی ہے۔ 

گزشتہ ہفتے فرانس کے شہر  سٹراسبرگ میں یورپی پارلیمنٹ نے ایک فوری قرارداد میں بھارت کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ منی پور میں پیدا ہونے والے قبائلی اور مذہبی بحران کے درمیان سکون بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

یورپی پارلیمنٹ میں بھاری  اکثریت سے منظور کی گئی قرارداد میں ہندوستانی حکومت سے منی پور میں تشدد کا ارتکاب کرنے والے ہجوم کو  حاصل ہونے والے استثنیٰ سے نمٹنے اورحکومت کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے مطابق تشدد کو روکنے کے لئے  موثر جواب دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں کہا گیا  کہ انسانی حقوق کے علمبردار طویل عرصے سے ہندوستان میں انسانی حقوق کی سنگین حالت پر توجہ مبذول کروا رہے ہیں، (وہاں موجود سنگین مسائل میں )ایسے قوانین اور پالیسیاں بھی شامل ہیں جو اقلیتی مذہبی گروہوں کی آزادیوں کو سختی سے محدود کرتی ہیں، اس کے علاوہ بنیاد پرست ہجوم کے ذریعہ اقلیتوں کو نشانہ بنا کر ہراساں کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔

اس قرارداد کے بعد بھارت کی مودی حکومت نے الٹا یورپی پارلیمنٹ کی مذمت کی کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملہ میں مداخلت کیوں کر رہی ہے۔ اس کے چند ہی روز بعد منی پور کے دارالحکومت امپھال کے قریب اقلیتی کوکی قبیلہ اور مسیحی مذہب سے تعلق کھنے والی دو خواتین کے ساتھ مجمع کے نازیبا سلوک کی وڈیو سوشل میڈیا میں آنے کے بعد بھارت میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور وزیراعظم نریندر مودی سے اس جرم میں ملوث افراد کے ساتھ فساد برپا کرنے والوں کی سختی سے محاسبہ کیا جانے لگا لیکن عوامی دباو کے باوجود نریندر مودی ریاستی حکومت پر تشدد روکنے کے لئے ٹھوس کارروائی کے لئے دباو ڈالنا تو  کجا اس مسئلہ پر بات تک نہیں کر رہے۔