سپریم کورٹ آف پاکستان ؛ فیض آباد دھرنا کیس فیصلہ کےخلاف  درخواستیں سماعت کیلئےمقرر

Chief Justice Faiz Isa, Faizabad Dharna Case verdict review petitions, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے چارج سنبھالنے کے بعد ایک اور بڑا اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنے کے فیصلہ کےخلاف نظرثانی کی درخواستیں چار سال بعد سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ 28 ستمبر کو نظرثانی کیس کی سماعت کرے گا۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ کے دیگر دو رکن ہیں۔

فیض آباد دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے کم از کم آٹھ درخواستیں دائر کی گئیں۔ سپریم کورٹ نے دھرنے سے پیدا ہونے والی ٹریفک جام کا نوٹس لیتے ہوئے کیس کی سماعت کی تھی۔

اس کیس کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم بنچ نے ریاستی اداروں کے اس وقت کے کچھ افسران کو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

تحریکِ لبیک نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم کے خلاف نومبر 2017 میں دھرنا دیا تھا جس کے دوران دباو ڈال کر اس وقت کی نواز شریف حکومت کے وزیر قانون زاہد حامد کسے استعفا لینے پر مجبور کر دیا گیاتھا۔ 
جسٹس فائز عیسیٰ بنچ کے فیصلہ پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا اور اس فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی آٹھ درخواستیں مختلف اداروں یا افراد کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئیں یا دوبارہ دائر کی گئیں، جن میں پاکستان تحریک انصاف، وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، اس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور سیاستدان اعجاز الحق شامل ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے 6 فروری 2019 کو اپنے فیصلے میں تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے 2017 کے فیض آباد دھرنے کے از خود نوٹس کیس کو سمیٹتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے میڈیا ونگ کو بھی ان کے مینڈیٹ میں رہتے ہوئے کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جسٹس عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 21 نومبر 2017 کو کیس پر ازخود نوٹس کی کارروائی شروع کی تھی۔

عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

اس از خود نوٹس کیس میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ مستقبل میں اسی طرح کے مظاہروں سے نمٹنے کے لیے "لچکدار" معیاری آپریٹنگ طریقہ کار تیار کریں۔

فیصلہ جسٹس عیسیٰ نے تحریر کیا۔ عدالت نے وزارت دفاع اور فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ماتحت اہلکاروں کو سزا دیں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں تحریک انصاف، ایم کیو کیو ایم کیخلاف آبزرویشن دی تھی،فیص آباد دھرنا فیصلہ کیوجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ریفرنس کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔