اعظم خان نے اعتراف جُرم کیوں کیا ؟ پھانسی گھاٹ تیار

اعظم خان نے اعتراف جُرم کیوں کیا ؟ پھانسی گھاٹ تیار
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

اعظم خان کا اعترافی بیان ثابت کرتا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے جس کی ایک سزا غداری کے مترادف یعنی سزائے موت بھی ہے، ثبوت بھی تھے اور آڈیو ٹیپس بھی صرف چشم دید گواہ نہیں تھا جو اب مل گیا۔ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے 164 کا جو بیان ریکارڈ کرایا ہے یہ ایک ایسا یو ٹرن ہے جو کپتان اور اُس کی جماعت کو پھانسی گھاٹ تک لے جاسکتا ہے۔

 اعظم خان نے یہ بیان کیوں ریکارڈ کرایا؟ کیا اُن پر کوئی دباؤ تھا؟ اگر دباؤ تھا تو کس کا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات درکار ہیں لیکن اس کے جواب سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ اعظم خان نے بیان کیا ریکارڈ کرایا، اعظم خان کا بیان کچھ اسطرح تھا کہ 8 مارچ 2022ء کو سیکرٹری خارجہ نے محمد اعظم خان سے رابطہ کیا اور سائفر کے حوالے سے آگاہ کیا۔ جسے اسی شام ان کی رہائش گاہ پر روانہ کر دیا گیا۔

 سیکرٹری خارجہ نے انہیں بتایا کہ وزیر خارجہ قریشی پہلے ہی عمران کے ساتھ سائفر پر بات کرچکے ہیں جس کی تصدیق عمران خان نے اگلے روز اس وقت کی جب محمد اعظم خان نے انہیں سائفر پیش کیا۔ سائفر کو دیکھ کر عمران خان نے خوشی کا اظہار کیا اور اس زبان کو US بلنڈر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کیخلاف بیانیہ تیار کرنے کیلئے سائفر کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 عمران خان نے اعظم خان کو یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک میں غیرملکی شمولیت کی طرف عام لوگوں کی توجہ دلانے کیلئے سائفر کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے اعظم خان سے سائفر ان کے حوالے کرنے کو کہا جو انہوں نے کر دیا۔ (کرپٹو دستاویزات کے حوالے کرنے کیلئے ہدایات اور ضابطے موجود ہیں بظاہر یہاں خلاف ورزی ہوئی تھی)۔

 محمد اعظم خان کے اعتراف کے مطابق سائفر کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھی اور اگلے دن (10 مارچ 2022ء) جب انہوں نے اسے مانگا تو عمران خان نے جواب دیا کہ ان سے گم ہو گیا ہے۔ محمد اعظم خان نے اعتراف کیا کہ عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ وہ اسے عوام کے سامنے پیش کریں گے اور اس بیانیے کو توڑ مروڑ کر پیش کریں گے کہ مقامی شراکت داروں کی ملی بھگت سے غیرملکی سازش رچائی جا رہی ہے۔ اس پر محمد اعظم خان نے مشورہ دیا کہ سائفر ایک خفیہ کوڈڈ دستاویز ہے اور اس کے مواد کو ظاہر نہیں کیا جاسکتا اور اس کے بعد وزیر خارجہ اور سیکرٹری خارجہ سے باضابطہ ملاقات کی تجویز دی جہاں وہ MOFA کی کاپی سے سائفر پڑھ سکتے ہیں (کیونکہ عمران خان کی اصل کاپی ابھی تک گم تھی) اور میٹنگ کے منٹس سے مزید فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

 28 مارچ 2022ء کو اجلاس بنی گالہ میں منعقد ہوا، جہاں سیکرٹری خارجہ نے وزارت خارجہ کی ماسٹر کاپی کا سائفر پڑھ کر سنایا اور اجلاس کے تمام مباحث اور فیصلوں پر غور کیا گیا اور اس معاملے کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 30 مارچ 2022ء کو کابینہ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جہاں وزارت خارجہ کے نمائندے نے دوبارہ سائفر پڑھا اور کابینہ کو بریفنگ دی اور اس معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 31 مارچ 2022ء کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جہاں مذکورہ بالا عمل کو دوبارہ دہرایا گیا اور قومی سلامتی ڈویژن کی طرف سے اس پر غور کیا گیا۔

 محمد اعظم خان کے مطابق وزارت خارجہ سے موصول ہونے والے تمام سائفرز جےJS FSA (وزیراعظم کے دفتر میں وزارت خارجہ کے نمائندے) کو واپس کردیے گئے ہیں، تاہم جب تک وہ پرنسپل سیکریٹری تھے وزیراعظم عمران خان کا کھویا ہوا سائفر واپس نہیں کیا گیا۔ کیونکہ عمران خان نے اسے کھو دیا تھا اور بار بار کہنے کے باوجود واپس نہیں کیا۔ پاکستانی سیاست کے جو رنگ اب نظر آرہے ہیں اس کی مثال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی وفاداریاں بدلنا اور بیورو کریسی کے رنگ بدلنے کی جو مثال اس دور میں سامنے آئی اس سے پہلے ایسا کبھی نہ ہوا تھا، اعظم خان کے متعلق تو یہ مشہور تھا کہ انہیں غائب کردیا گیا ہے اور اُن کے اہلخانہ نے بھی ایک درخواست گمشدگی جمع کرا رکھی تھی لیکن وہ خود روپوش تھے اُن کے مطابق وہ ایک دوست کے ہاں مقیم رہے اور اب اپنے ضمیر کی آواز پر بیان دے رہے ہیں۔

 حقیقت حال یہ ہے کہ اعظم خان پر دباؤ تھا اور یہ دباؤ سیاسی صورتحال میں عمران خان کی جانب سے مسلسل محاذ آرائی کے باعث پیدا ہوا، اعظم خان بھی اُن افراد میں شامل تھے جنہیں یقین تھا کہ جلد یا بدیر عمران خان کے معاملات درست ہوجائیں گے لیکن اُن کے سب سے بڑے سپورٹر پرویز خٹک نے جب پارٹی سے علیحدگی اختیار کی اور اعظم خان کو بیان دینے کیلئے قائل کیا تو انہوں نے ناصرف بیان ریکارڈ کرادیا بلکہ گمشدگی کی ایف آئی آر بھی واپس لے لی، یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے عمران خان کے سیاسی مستقبل کو مزید تاریک اور انہیں جیل کے زیادہ نزدیک کردیا ہے۔