دوسری جنگ عظیم ختم ہوئے چند سال گذر چکے تھے کہ یورپ کے دور دراز جنگلی محاذ سے ایک ایسا فوجی زندہ ملا جو اب بھی جرمن فوجوں کے انتظار میں اپنے کمانڈر کے حکم پر ڈیوٹی دے رہا تھا اسےپتہ ہی نہیں تھا کہ جنگ ختم ہوچکی وہ اب بھی اپنی ڈیوٹی پر جنگلی پھل پھول کھا کر زندہ تھا ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بہت ہی مختصر ہے صرف 75 سالہ تاریخ رکھنے والے اس ملک میں کب کیوں ، کہاں اور کیسے ہوا سب کو ازبر ہے ،لیکن ایک بڑی سیاسی قوت جماعت اسلامی کا عروج و زوال آپ سب کے سامنے ہے آج پاکستان کی سیاست میں یہ جماعت صرف اپنے پرانے نیم برینڈ کے ساتھ زندہ ہے یا یوں کہیں سیاست میں اپنی آخری ہچکیاں لیتے اب کسی انقلابی راہنما کی منتظر ہے ۔
اس جماعت کی یہ زبوں حالی پہلے کبھی نہ تھی جیسی اب ہے کہاں وہ جماعت اسلامی جسے تعلیمی اداروں سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اپنے کٹر اسلامی تشخص کے باوجود مولانا موددودی سے لیکر قاضی حسین احمد تک اس جماعت کی سیاسی ساکھ نوجوان نسل میں بھی موجود تھی ، اسٹیبلشمنٹ بھی اس جماعت کو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ ضیائی مارشل لا ء میں بھی یہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہی ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ سے لیکر غیر جماعتی انتخابات تک اور آئی جی آئی کے قیام سے مشرف کی حمایت تک اس جماعت کی خدمات کو سراہا جاتا رہا ،
قاضی حسین احمد نے سیاسی طور پر اس جماعت کو مقبول بنانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو عمومی طور پر اس نیم مذہبی سیاسی جماعت کا خاصہ نہیں تھا " ظالمو قاضی آرہا ہے " کا لافانی نعرہ 1988 سے لیکر آج کے دن تک سب کی محفلوں میں دہرایا جاتا ہے ،لیکن اس جماعت کے اس سیاسی تشخص کو قاضی صاحب کے بعد زندہ نہ رکھا جاسکا اچھی صاف ستھری قیادت کے باوجود یہ جماعت ایک ایسے لیڈر سے محروم رہی جو اسے ایوانوں میں لے جاتی ، جناب سراج الحق اپنی ترچھی ٹوپی کے سٹائل اور اپنی والدہ کی جانب سے ترچھی ٹوپی پہنانے کے جزباتی واقعہ کے باعث بہت سے دلوں میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ، انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کے امیدوار محمد بشیر خان سے اپنے آبائی حلقے میں 16 ہزار سے زائد ووٹ سے شکست کھائی یوں اس ایک شکست نے اُن کی شخصیت میں وہ جذبہ جو جماعت اسلامی کا خاصہ تھا کچھ کمزور کیا ، وہ 2015 میں ہی خیبر پختونخواہ سے تعلق کی بنیاد پر وہ اس بات کو بھانپ گئے کہ اگر جماعت اسلامی کو اس صوبے میں مزید کچھ حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے انہیں پی ٹی آئی کے قریب ہونا ہوگا اور یوں نواز شریف کے فطری اتحاد سے عملاً نکلنے کے بعد وہ پراجیکٹ عمران خان میں ایک کارکن کے طور شامل ہوئے ۔
اسٹیبلشمنٹ سے جماعت کی تاریخی وابستگی نے پراجیکٹ عمران خان کی کامیابی کے لیے سراج الحق کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا پوری دنیا میں پانامہ پیپرز کا شور ہوا تو ذہن سازوں نے ان پیپرز پر ایک بریفنگ سراج الحق صاحب کو دی اور پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جماعت اسلامی کو مضبوط کرنے کے لیے وہ ایوان عدل کی سیڑھیاں چڑھ گئے چار سو سے زائد افراد کے پانامہ کیس کو دنیا بھر میں پذئیرائی ملی ان پیپرز میں بیرون ملک کمپنیاں بنانے والوں کے نام آئے تو ججز، اسٹیبلشمنٹ ، صنعتکار ، اور سیاست دان سب شامل تھے ایک نام اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا بھی تھا پراجیکٹ عمران خان کے معماروں نے سراج الحق کے ذریعے ہی عدالت میں ایک درخواست دائر کی جس کو پھانپتے ہوئے اس ووقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اور اُن کے ہمنوا ججز نے سب کچھ چھوڑ اس کیس کو سامنے رکھا کبھی جے آئی ٹی بنی تو کبھی نگران جج لگایا گیا اس کیس میں نواز شریف کے خلاف کچھ تھا نہیں اس لیے بہت زور لگانے اور عدالتی معاونت کے باوجود کوئی بھی پانامہ کیس کو نواز شریف پر ثابت نہ کرپایا لیکن اسی کیس میں بیٹے کی کمپنی میں ملازمت کا اقامہ کے نام پر نہ لی جانے والی تنخواہ کو بھی الیکشن کمیشن میں ڈکلئیر نہ کرنے کی بنا پر میاں محمد نواز شریف کو نا اہل کر دیا گیا ، پراجیکٹ عمران خان کا مقصد پورا ہوا تو اس کیس اور اس کیس کے درخواست گذار سراج الحق کو استعمال شدہ ٹشو پیپر سمجھ کر بھلا دیا گیا ۔
یہ جماعت اسلامی کے لیے بڑا دھچکہ تھا وہ پراجیکٹ عمران خان کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں اس پراجیکٹ کو بنانے والے اور چلانے والے گھروں کو چلے گئے لیکن سیاسی وفاداری کے پیکر سراج الحق آج بھی اُسی طرح جانفشانی سے اس پراجیکٹ پر تن تنہا کام کر رہے ہیں ، پانامہ کیس میں سراج الحق صاحب کے ساتھ اب جو کچھ ہوا اسے بھی پڑھ لیں کہ کیسے جب وہ اپنی شہرت کے لیے دوبارہ اس کیس کو سپریم کورٹ لیکر گئے تو کیا ہوا
"عدالتِ عظمیٰ کے جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کچھ اور ہی معاملہ تھا، 436 افراد میں سے صرف 1 خاندان کو الگ کر کے کیس چلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں کچھ کہنا نہیں چاہتا مگر ایسا کیا ہو گیا تھا کہ 24 سماعتوں کے بعد 1 خاندان کے سوا دیگر تمام افراد کے کیسز الگ کر دیے
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہاں بیٹھ کر بہت سی باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے۔
جسٹس طارق مسعود نے جماعتِ اسلامی کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ کا مقصد صرف 1 خاندان کے خلاف کیس چلانا تھا؟"
ان ریمارکس کے باوجود سراج الحق نے ؎
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
کہ مصداق وہ آج بھی جنرل فیض حمید کے کہے پر کراچی میئر کے انتخاب میں عمران خان سے جا ملے لیکن اب وہ حالات ہی نہیں ہیں اس لیے کراچی کی میئر شپ مرتضیٰ وہاب یعنی پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی اور سڑکوں پر احتجاج اور عدالتی چکر جماعت اسلامی کے پراجیکٹ عمران خان کلوز ہوگیا لیکن سراج الحق اب بھی دکھائے گئے پرانے خواب و خیال میں جماعت اسلامی کی سیاست کو ڈبونے کے چکر میں ہیں ۔ امیر جماعت اسلامی کے نئے امیر کا انتخاب اب 2024ء کو ہے اور اگر اب کے بھی سراج الحق صاحب کا انتخاب ہوا تو پھر اس جماعت کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔