ای چالان غیر قانونی، ہائیکورٹ برہم، سیکرٹری قانون، سی ای او سیف سٹی اتھارٹی طلب

safe city authority HQ lahore
کیپشن: safe city authority HQ lahore
سورس: city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ملک اشرف:  لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ  بتایا جائے کہ کسی قانون کے بغیر سیف سٹی اٹھارٹی کے پاس ای چالان کرنے کا اختیار ہے؟ عدالت نے قانون سازی کے بغیر سیف سٹی اٹھارٹی کے ذریعے ای چالان کرنے پر اظہار تشویش کیا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق  ایک درخواست کے ذریعے سیف سٹی  کیمروں کےذریعے  ای چالان کرنے کا اختیار لاہور ہائیکورٹ  میں چیلنج  کیا گیا تھا ۔ جسٹس ۔طارق سلیم نے فلک شیر کی درخواست پر  سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے مظہر امین اور میاں اویس سلیمان ایڈوکیٹ  پیش ہوئے۔

دوران سماعت عدالت نے قانون سازی کے بغیر سیف سٹی اٹھارٹی کے ذریعے ای چالان کرنے پر اظہار تشویش کیا ہے جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کہ  بتایا جائے کہ کسی قانون کے بغیر سیف سٹی اٹھارٹی کے پاس ای چالان کرنے کا اختیار ہے؟ یہ بھی بتایا جائے کہ ڈرائیور کے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر گاڑی کو کیسے بند کیا جاسکتا ہے۔ 

عدالت نے مزید استفسارکیا ہے کہ کیا اگرٹریفک قوانین کی خلاف ورزی  ڈرائیور کرتا ہے تو مالک کا  ای چالان کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ڈرائیور کے جرم کرنے کی سزا گاڑی کے مالک کو کیسے دی جاسکتی ہے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ کا مزید کہنا تھا کہ ابھی قانون بنا نہیں اور کس طرح سیف سٹی اتھارٹی ای چالان کررہی ہے۔ جس پر پنجاب حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے  ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ملک اختر جاوید  کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ  کے ایک  حکم کی روشنی میں ای چالان کئے جارہے ہیں۔ جس پر جسٹس طارق نے کہا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں.  کہ سپریم کورٹ کے کئی کئی فیصلوں میں قرار دیا گیا کہ قانونی سازی کے بغیر اس طرح کے اقدامات غیر قانونی ہیں۔ مجھے بتائیں کہ کیا عدالتی حکم پر قانون سازی کے بغیر  ای چالان کئے جاسکتے ہیں جس پر اے اے جی ملک اخترنے کہا کہ بالکل اس بات کا علم ہے اور قانون سازی زیر التواء اور جلد ہی اس پر قانون سازی کردی جائے گی۔ جس پر جسٹس طارق سلیم نے کہا ابھی اس وقت کی جو صورت حال ہے اس میں قانون سازی کے بغیر ای چالان کا عمل تو غیر قانونی ہی ہے۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی استدعا  عدالت نے پنجاب حکومت کو تحریری تفصیلی جواب جمع کرانے کاحکم دیا ہے جبکہ  اگلی تاریخ سماعت 21 مارچ کو سیکرٹری قانون پنجاب، سی ای او سیف سٹی اتھارٹی اور سیکرٹری ٹرانسپورٹ کو طلب کرلیا 

درخواست گذار فلک شیر نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں کے موٹر ویکل آرڈیننس 1965 کے تحت چالان کیے جاتے ہیں ۔سیف سٹی کمیروں کےذریعے ای چالان اور نادھندگان سے زبردستی  وصولی کا کوئی قانون موجود نہیں ۔سیف سٹی کیمروں کے ذریعے  صرف گاڑیوں کی سہیڈ چیک کی جاسکتی ہے جو بطور شہادت استعمال ہوسکتے ہیں جبہ نادہندگان کے چالان  متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت کو بھجوانا قانونی تقاضا ہے ۔مطلقہ مجسٹریٹ ہی متعلقہ چالان  پر سمری ٹرائل کرکے جرمانہ  یا بری کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ نادھندگان  کی گاڑیاں سڑک پر زبردستی روک کرٹریفک وارڈن یا سیف سٹی سٹاف گاڑیاں بند اور جرمانہ وصول نہیں کرسکتا۔ اورنہ ہی   اسمبلی سے قانون منظور  کروائے بغیر سیف سٹی کےذریعے ای چالان اور جرمانوں کی وصولیاں  ہوسکتی ہیں ۔عدالت سیف سٹی اتھارٹی کے ذریعے  ای چالان کرنے  اور  نادھندگان سے وصلیوں کا اقدام کالعدم قرار دے۔