نوا شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے

نوا شریف 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئیں گے
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کی تاریخ طے کرلی گئی۔

لندن میں نوازشریف کی زیرصدارت مسلم لیگ ن کا اجلاس ہوا جس میں شہباز شریف، سلیمان شہباز، حسن نواز، خواجہ آصف اور دیگر رہنما شریک تھے۔اجلاس میں نواز شریف کی وطن واپسی اور انتخابات کی حکمت عملی پر غور کیا گیا جبکہ الیکشن سے متعلق پیپلز پارٹی کے مؤقف پر بھی بات ہوئی۔سابق وزیراعظم شہباز شریف نے بیان میں کہا کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس پہنچیں گے اور ان کا وطن واپسی پر فقید المثال استقبال کیا جائے گا۔

نواز شریف کو لاہور میں استقبالیہ دیا جائے گا اورملک کے مختلف علاقوں میں ان کیلئے ریلیوں کا انعقاد کیا جائےگا۔خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نومبر 2019 میں علاج کیلئے برطانیہ گئے تھے۔

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا اہم بیان 

ایک اہم پیشرفت میں، سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے سربراہ نواز شریف کی آئندہ انتخابات سے قبل پاکستان واپسی کی تاریخ کا انکشاف کیا ہے تاکہ پارٹی کی سیاسی مہم کی قیادت کی جا سکے۔

شہباز شریف نے منگل کے روز بتایا کہ " نواز شریف 21 اکتوبر کو پاکستان پہنچیں گے۔"انہوں نے کہا، معمار پاکستان اور رہبر عوام محمد نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس تشریف لائیں گے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ  نواز شریف کا وطن آمد پر فقید المثال استقبال کیا جائے گا۔ مسلم لیگ نون کے صدر کا یہ بیان لندن میں نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے اجلاس کے بعد سامنے آیا۔

نواز  شریف جو صحت کی وجوہات کی بناء پر نومبر 2019 سے لندن میں خود اختیاری جلاوطنی میں ہیں، ان کو قابل وصول لیکن حقیقتاً کبھی وصول نہ کی گئی تنخواہ اپنے ٹیکس گوشواروں میں ڈیکلئیر نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے 2017 میں تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔

لندن میںمسلم لیگ نون کے اجلاس میں سلیمان شہباز، حسن نواز، سابق وفاقی وزیر خواجہ آصف، ملک محمد احمد خان اور ناصر جنجوعہ نے شرکت کی۔ الیکشن کے حوالے سے پارٹی کی حکمت عملی، نواز شریف کی واپسی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا انتخابات سے متعلق مؤقف زیر بحث آیا۔

دریں اثنا، سابق وفاقی وزیر اور پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بھی مائیکروبلاگنگ سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں شہباز شریف کے بیان کی تصدیق کی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ ن کے سپریمو کی واپسی پر ان کا پرتپاک استقبال کیا جائے گا۔

گزشتہ ہفتے اسٹین ہاپ ہاؤس میں اپنی پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کے ساتھ بات چیت کے دوران، نواز ن شریف نے خود پہلی بار اگلے ماہ وطن واپسی کی تصدیق کی تھی۔

اس سے قبل مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھی کہا تھا کہ ان کے بھائی اکتوبر میں واپس آئیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف اکتوبر میں پاکستان واپس آئیں گے اور انتخابی مہم کی قیادت کریں گے اور اس کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی پارٹی مشاورت کے بعد کیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیراعظم جب وطن واپس آئیں گے تو انہیں ملکی قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان

اس سے قبل میڈیا اطلاع دی تھی کہ نواز شریف ستمبر کے وسط تک پاکستان واپس آجائیں گے، تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان  کی جانب سے 90 دنوں میں انتخابات ممکن نہ ہونے کے اعلان کے بعد گزشتہ چند دنوں میں نواز شریف کی واپسی کے پلان میں تبدیلی آئی ہے۔

اکتوبر کے وسط میں واپسی کا فیصلہ شہباز شریف کی برطانیہ کے دارالحکومت میں مسلم لیگ (ن) کے سپریمو کے ساتھ دو ملاقاتوں کے بعد کیا گیا، شہباز شریف حکومت کی باگ ڈور نگراں وزیر اعظم انور کو سونپنے کے بعد 20 اگست کو ان کی لندن پہنچے تھے، تب سے وہ وہیں مقیم ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما ماضی میں عام انتخابات سے قبل نواز کی وطن واپسی کا بار بار ذکر کر چکے ہیں۔ جنوری میں، سابق وزیر داخلہ اور پارٹی کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے قانونی چیلنجوں پر قابو پانے کے بعد نواز کی "باعزت وطن واپسی" کا اشارہ دیا۔

" نواز شریف کو لاہور میں اترنا چاہیے،" انہوں نے مشورہ دیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ لندن سے واپسی پر ان کا بے مثال استقبال کیا جائے گا - جہاں وہ 2019 سے مقیم ہیں۔

نواز  شریف کی جلاوطنی
تین بار  وزیر اعظم  رہنے والے مسلم لیگ نون کے لیڈر نواز شریف 19 نومبر 2019 کو لندن پہنچ تھے، اس وقت وہ جیل میں  بیمار ہونے کے بعد کچھ روز لاہور کے سروسز ہسپتال میں زیر علاج رہے پھر میڈیکل بورڈ کی سفارش پر انہیں خون کے پلیٹ لیٹس کی کمی کا علاج کروانے کے لئے لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ میڈیکل بورڈ نے مختلف ٹیسٹوں کی روشنی میں نواز  شریف میں مدافعتی نظام کی خرابی کی تشخیص کی تھی اور انہیں علاج کے لیے بیرون ملک  بھیجےجانے کی سفارش کی تھی کیونکہ ملک میں بہترین ممکنہ نگہداشت کے باوجود ان کی حالت مسلسل خراب ہوتی جا رہی تھی۔ انہیں عدالت کے خصوصی حکم اور حکومت کی اجازت کے بعد بیرون ملک جانے کی اجازت ملی تھی۔ لندن پہنچ کر انہوں نے اپنا علاج کروایا اور اب کافی عرصہ سے وہ تندرست ہیں۔

نواز شریف کےخاندان کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ عمران خان کی قیادت والی حکومت اور ان کے حمایتیوں نے نواز  شریف کو جیل میں کو زہر دینے کی کوشش کی تھی۔ ان کا چار ماہ تک ہارلے سٹریٹ کلینک اور لندن برج ہسپتال میں علاج کیا گیا تھا۔

نواز شریف کی واپسی اورر قید کی سزا

نواز شریف کے لندن میں علاج کی تکمیل کے بعد ان کی واپسی میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی تاہم  گزشتہ حکومت کی انتقامی کارروائیوں، ملک کے سیاسی ماحول اور نواز شریف کی پاناما کیس میں سزا کے سبب واپس آتے ہی جیل میں قید اورر اعلیٰ عدلتوں میں انصاف ملنے کے متعلق خدشات کے سبب مسلم لیگ نون کی قیادت کی جانب سے ان کی واپسی کو موخر کیا جاتا رہا۔وفاق میں مسلم لیگ نون اور اتحادی جماعتوں کی حکومت ہونے کے باوجود  سیاسسی تجزیہ نگاروں اورر مبصرین کی جانب سے میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی کے حوالہ سے سب سے بڑی رکاوٹ اعلیٰ عدالتوں میں بعض ججوں کے جانبدارانہ رویہ کو قرار دیا جاتا رہا۔اب  کچھ ہفتوں سےکہا جاتا رہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی ہئیتِ ترکیبی مین اہم تبدیلوں کے پیش نظر اورر متوقع عام انتخابات سر پر آ جانے کے سبب نواز شریف کو ہر صورت میں پاکستان واپس آ کر اپنی پارٹی کی سیاسی مہم میں کردار ادا کرنا پڑے  گا۔

نئی حلقہ بندیوں، انتخابات کی تاریخ کا ایشو
گزشتہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے سبکدوش ہوئی ہے لیکن اس کے بعد نئےعام انتخابات کے بارے میں اب تک قیاس آرائیاں اور تنازعات سر اٹھا رہے ہیں اور مختلف عوامل کی وجہ سے انتخابی عمل میں تاخیر کا سامنا ہے۔ وہ انتخابات جو اکتوبر میں ہونے والے تھے، نئے سرے سے حد بندی کی ذمہ داری کی وجہ سے اگلے سال کے آغاز تک موخر کر دیے گئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت نے 9 اگست کو قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا تھا جب کہ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کو بھی قبل از وقت تحلیل کردیا گیا تھا تاکہ انتخابی اتھارٹی کو ملک میں 60 دن کے بجائے 90 دن میں انتخابات کرانے کی اجازت دی جائے اگر مقننہ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ .

اگر انتخابات آپ کی 90 دن کی حد کے اندر کرائے جائیں تو پھر انتخابات کا انعقاد 9 نومبر 2023 کو ہونا چاہئے تھا تاہم، اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے قبل اتحادی حکومت نے مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں متفقہ طور پر ساتویں آبادی اور مکانات کی مردم شماری 2023 کی منظوری بھی دےدی تھی۔ ماہرین کا کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51 (5) کے مطابق ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کو قومی اسمبلی کی نشستیں نئی مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر مختص کرنا الیکشن کمیشن پر لازم ہے۔

مشترکہ مفادات کی کونسل  کی منظوری کے بعد، الیکشن کمشن آف پاکستان نے 17 اگست کو نئی حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کیا جو 9 نومبر کی 90 دن کی آئینی حد سے تجاوز کر گئی، تقریباً اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ انتخابات 90 دن کے بعد ہونے کا امکان ہے۔

ای سی پی کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق:
8 ستمبر سے 7 اکتوبر تک - ملک بھر میں ہونے والے حلقوں کی حد بندی۔
10 اکتوبر سے 8 نومبر - حلقہ بندیوں کے حوالے سے تجاویز پیش کی جائیں گی۔
5 ستمبر سے 7 ستمبر تک - قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کا کوٹہ مختص کیا جائے گا۔
21 اگست - چاروں صوبوں کی حلقہ بندی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔
31 اگست - انتخابی حلقوں سے متعلق انتظامی امور مکمل کیے جائیں گے۔
10 نومبر سے 9 دسمبر تک - الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں پر اعتراضات پر فیصلہ کرے گا۔
14 دسمبر - حد بندی کی حتمی اشاعت۔

Ansa Awais

Content Writer