نواز شریف کو سزا سنانے والے جج کی ویڈیو سکینڈل کی انکوائری رپورٹ میں اہم انکشافات

نواز شریف کو سزا سنانے والے جج کی ویڈیو سکینڈل کی انکوائری رپورٹ میں اہم انکشافات
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ملک اشرف) سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج کیخلاف ویڈیو سکینڈل کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر آ گئی، اسلام آباد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کیخلاف انکوائری رپورٹ میں جج کو قصور وار قرار دیتے ہوئے نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

لاہورہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے جج ارشد ملک کیخلاف 13 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ تیار کی جس میں کہا گیا ہے کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ارشد ملک نے جرائم پیشہ گروہ میں رضا کارانہ طور پر شمولیت اختیار کی، ارشد ملک نے ایسا کوئی ثبوت نہیں دیا جس سے ظاہر ہو کہ خوفزدہ یا ہراساں کیا گیا تھا، ملزم ارشد ملک یہ بھی ثابت نہیں کر سکے کہ انہوں نے اپنی مرضی کیخلاف تمام متنازع کام کیے، ناصر بٹ، ناصر جنجوعہ اور مہر ناصر کی جوڈیشل افسر سے مسلسل ملاقاتوں سے ثابت ہوتا ہے ارشد ملک تک ان کی رسائی ہمیشہ سے تھی۔

  انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ میاں نواز شریف کیخلاف نیب ریفرنسز کا فیصلہ کرنے کے بعد ملزم افسر جاتی امراء میں نواز شریف سے ملا، جج ارشد ملک نے کیسز کا فیصلہ کرنے کے بعد دوران عمرہ حسین نواز سے سعودی عرب میں ملاقات بھی کی، جج ارشد ملک اپنے اہلخانہ کے ہمراہ عمرہ کرنے گیا اور ناصر بٹ نے پھر سے ملزم افسر سے رابطہ کیا اور حسین نواز سے ملاقات کی، جج ارشد ملک کی مدینہ میں حسین نواز شریف سے ملاقات کو اچانک نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ یہ طے شدہ تھی۔

  انکوائری رپورٹ کے مطابق ملزم افسر نے نواز شریف کیخلاف اپنے ہی جاری کیے گئے فیصلے پر تیار کی گئی، اپیل کا جائزہ بھی خود لیا، ملزم افسر ارشد ملک نے تسلیم کیا کہ 2000ء سے 2003ء میں ملتان تعیناتی کے دوران متنازع ویڈیو بنانے والے میاں محمد طارق سے جان پہچان ہوئی، جج ارشد ملک نے ناصر بٹ سمیت دیگر سے ملنے والی دھمکیوں اور بلیک میلنگ سے متعلق کبھی بھی اپنے افسران کو آگاہ نہیں کیا، جج ارشد ملک نے دباﺅ کے تحت ملاقات کرنے کے بیان کے دفاع میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، جج ارشد ملک کی نواز شریف، حسین نواز، ناصر بٹ سمیت دیگر کی ملاقاتوں کو اتفاقی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق ملزم جج ارشد ملک کی نواز شریف، حسین نواز سمیت دیگر سے ملاقاتیں کرنا ضابطہ اخلاق کی دفعہ 7 ، 30 اور 31 کی خلاف ورزی ہے، ملزم جوڈیشل افسر کا ایک طرف کہنا کہ اسے بلیک میل کیا گیا اور دوسری طرف نواز شریف کیخلاف فیصلے کا آخری پیرا ملزم کے موقف کی نفی کرتا ملزم جج ارشد ملک نے اپنے دفاع میں جتنی بھی دستاویزات پیش کیں وہ تمام غیر مصدقہ فوٹو کاپیاں پیش کیں جنہیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا، ملزم جج ارشد ملک کیخلاف مس کنڈکٹ کا الزام ہے اور ملزم نے الزامات کی تردید نہیں کی بلکہ کہا کہ اس نے ملاقاتیں دباﺅ کے تحت کیں، ملزم جج ارشد ملک نے کہا ہے کہ وہ ایسا عمل نہیں کرنا چاہتا تھا کہ جس سے اس کے اہلخانہ کو تکلیف پہنچائی جائے، ملزم ارشد ملک نے اپنا جرم تسلیم کیا مگر استدعا کی کہ اسے معاف کر دیا جائے ، جج کو اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنا لازم ہوتا ہے، ضابطہ اخلاق کی دفعہ 30 کے تحت کسی بھی جج کو کسی بھی فریق سے ملاقات یا رابطہ نہیں کرنا چاہیے۔

  انکوائری رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ارشد ملک نے بیان حلفی میں تسلیم کیا ہے کہ ناصر جنجوعہ اور مہر ناصر نے نواز شریف کیخلاف ریفرنسز میں جانبدارانہ فیصلے کروانے کا کہا، بیان حلفی میں ارشد ملک نے ناصر بٹ کی جانب سے ہراساں، بلیک میل اور دھمکیاں موصول ہونے کا ذکر کیا ہے۔

 انکوائری ریکارڈ سے انکشاف ہوا کہ ملزم ارشد ملک سعودی عرب مدینہ میں حسین نواز سے بھی ملا، ریکارڈ کے مطابق ملزم جج ارشد ملک کو استعفیٰ دینے کیلئے 500 ملین روپے کی آفر بھی کی گئی، ملزم جج ارشد ملک کو کہا گیا کہ وہ استعفیٰ دے اور کہے کہ نواز شریف کیخلاف فوج اور عدلیہ کے دباﺅ پر ریفرنسز دائر کیے گئے، انکوائری رپورٹ کے مطابق ملزم ارشد ملک نے مخصوص حالات و واقعات کی وضاحت کیلئے جاتی امراء میں ناصر بٹ کے ہمراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کی، ملزم ارشد ملک نے نواز شریف کیخلاف ریفرنس میں اپیل دائر کرنے کی تیاری میں بھی ناصر بٹ سے ملاقات کیم ملزم جج ارشد ملک نے ویڈیو سکینڈل میں اپنے دفاع کیلئے کوئی گواہ پیش نہیں کیا، ملزم افسر محمد ارشد نے پریس ریلیز اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروایا گیا مصدقہ بیان حلفی بطور ثبوت پیش کیا، ملزم جج ارشد ملک نے مس کنڈکٹ کے الزامات ثابت نہ ہونے کا بیان دیا، ملزم جج ارشد ملک نے کہا کہ پراسیکیوشن کے جبر اور سختی کی وجہ سے انہوں نے بیان حلفی اور پریس ریلیز جاری کی، جج ارشد ملک نےمیاں نواز شریف کیخلاف فلیگ شپ اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ ریفرنس پر فیصلے سنائے، ملزم جوڈیشل افسر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دیئے گئے بیان حلفی اور پریس ریلیز جاری کرنے کے الزام کو کسی بھی سطح پر رد نہیں کیا۔

 جوڈیشل افسر ارشد ملک نے پوری انکوائری میں کہیں بھی نہیں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس سے بیان حلفی مانگا تھا، ارشد ملک نے مریم صفدر کی 6 جولائی 2019ء کی پریس کانفرنس کے بعد اپنی بے گناہی کی پریس ریلیز جاری کی، احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ارشد ملک پنجاب سول سرونٹس رولز کی دفعہ 3 بی کے تحت مس کنڈکٹ کے مرتکب پائے گئے، انکوائری رپورٹ میں پنجاب سول سرونٹس رولز کی دفعہ 4 بی کے تحت ارشد ملک کو نوکری سے برخاست کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

Sughra Afzal

Content Writer