صدر مملکت جناب عارف علوی نے الیکشن کمیشن کی تجویز کے بعد 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دےدی ہے اس خبر کے نشر ہونے کے بعد صوبے بھر میں جس کسی سے بھی رابطہ ہوا اس نے یہی پوچھا کہ کیا یہ انتخابات ہوجائیں گے ظاہر ہے کہ ملکی موجودہ معاشی اور دفاعی صورتحال میں ہر اس شخص کے جو پاکستان بارے سوچتا ہے یہ سوال ابھرا ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ سوال بنیادی طور پر بنتا بھی یہی ہے کہ ان حالات میں جہاں سیاسی طور پر حکومت مہنگائی کی موجودہ صورتحال میں انتخابات کو افورڈ ہی نہیں کرتی ہے ابھی میں انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے تانے بانے ب±ن ہی رہا تھا کہ ایک دوست نے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا کیا خیال ہے 30 اپریل کو انتخابات ہوجائیں گے میں نے کہا بظاہر ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ان انتخابات کو التوا کا شکار کیا جائے، سپریم کورٹ کی ڈائریکشن پر الیکشن کمیشن نے صدر پاکستان کو 30 اپریل سے 7 مئی تک کی کسی ایک تاریخ کا تعین کرنے کا کہا تو صدر پاکستان نے 30 اپریل بطور اتوار انتخابات کرانے کی تاریخ دے دی۔
میں خاموش ہوا تو اس کا بلند بانگ قہقہہ میری سماعتوں سے ٹکرایا ہنسی کا یہ یکطرفہ طوفان تھما تو میں نے کہا کہ کیا میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہے ،تو وہ پھر ہنسا اور مجھے یوں لگا کہ جیسے میرا تمسخر اڑا رہا ہو لیکن کچھ ہی دیر میں وہ بھی سنجیدہ ہوگیا اور کہا کہ جناب الیکشن 30 اپریل کو نہیں ہوں گے باری باری اس پر بات کرلیں میں نے کہا جی کرلیں تو وہ گویا ہوا پاکستان کہ ایک چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بھی تھے انہوں نے بطور چیف جسٹس ایک فیصلہ دیا تھا کہ پاکستان کی دفتری ، سرکاری درباری اور عدالتی زبان اردو ہوگی فیصلہ تھا وہ بھی سب سے بڑی عدالت کی سب سے بڑی کرسی کا فیصلہ تھا کیا اس پر عملدرآمد ہوا ، میرا جواب تھا نہیں ، وہ پھر بولا اب آئین کی بات کر لیتے ہیں کہ اس آئین ایک شق 25 اے ہے جس کے مطابق پہلی جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک کے طلباکو مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یہ صرف دو مثالیں ہیں سمجھانے کیلئے اگر یہ دو کام نہیں ہوئے تو کیا توہین عدالت ہوئی یا حکومتیں آئین شکنی کی مرتکب قرار پائیں ، وہ چپ ہوا تو میں نے کہا نہیں ،میرے جواب پر وہ مسکرایا اور کہا سنو میاں صدر پاکستان نے تو پہلے بھی 9 اپریل کی تاریخ دی تھی الیکشن کمیشن نے 9 سے 13 کے درمیان الیکشن کرانے کا کہا تھا کیا ہوا الیکشن ہوا ، عدالت کو سوموٹو لینا پڑا 9 رکنی بنچ بنا جس کے بعد 5 رکنی بنچ بنا فیصلہ آیا تو ری ایکشن بھی آگیا دونوں پارٹیاں اپنے اپنے طور پر اپنی فتح کے ڈونگرے بجا رہے ہیں لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھو تو ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ٹیکنیکلی مردم شماری شروع ہوچکی ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد اس پر اعتراضات لگیں گے سماعتیں ہوں گی جس کے بعد نئی حلقہ بندیاں پھر اعتراضات اور پھر سماعتیں ہونا ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پرانی مردم شماری پر اور باقی ملک میں نئی مردم شماری اور حلقوں کے ساتھ انتخابات ہوں اس کو یوں سمجھو کہ لاہور میں اس وقت صوبائی اسمبلی کی 23 سیٹیں ہیں لیکن نئی مردم شماری کے مطابق یہ سیٹیں 40 ہوسکتی ہیں اگر پرانی مردم شماری کے مطابق تو لاہور کے شہری گھاٹے میں رہیں گے قومی اسمبلی میں بھی نئی کھچڑی پک جائے گی کون سا محب وطن شہری اپنا حق چھوڑے گا لوگ اعتراضات اٹھائیں گے جس کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا۔
یہ تو تھا ایک پہلو اب دوسری جانب آؤ کہ کیا حکومت کو موجودہ معاشی حالات میں الیکشن بھاتے ہیں نہیں اگر الیکشن ہوں گے تو حکومت گھاٹے میں رہے گی اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ری ویو یا دوبارہ سماعت کا کہا جائے گا یعنی ری پٹیشن اور اس صورت میں تمام سیاسی جماعتیں کورٹ پہنچیں گی ماسوائے پی ٹی آئی کے اور عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جائے گی ، اس کے علاوہ جو آڈیوز آئی ہیں اس حوالے سے بھی ریفرنس دائر کیے جائیں گے یوں معاملہ کھٹائی میں ہی رہے گا تاریخ پہ تاریخ ،تاریخ پہ تاریخ والا معاملہ بھی ہوسکتا ہے اداروں کو بشمول عدلیہ کو بھی ان سارے مسائل کا ادراک ہے کہ الیکشن ایک وقت میں متناسب نمائندگی کے اصولوں پر ہوں تو عوام کا فائدہ ہے اس لیے میری جان خاطر جمع رکھ انتخابات ہونے کے نہیں ہیں۔
وہ اپنی بات کہہ کر یہ جا وہ جا اور میں مریم نواز کی تقریر جو وہ گوجرانوالہ میں کر رہی تھیں سننے لگا اس تقریرمیں وہ بار بار کھلونا ٹرک ہوا میں لہرا کر انصاف کی دہائیاں دے رہیں تھیں سیاسی پارہ ہائی ہے ایسے میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے توبہ توبہ میں بھی دوست کی باتوں میں آکر کیا کہہ گیا دوست نے شائد مجھے قائل کر لیا ہے کہ انتخابات 30 اپریل کو نہیں ہوں گے۔