فوجی عدالت میں سویلین کا ٹرائل, فل کورٹ بنانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ، کل سنایا جائیگا

 City42, hearing civilians' trial in military courts, Islamabad, Supreme Court of Pakistan
کیپشن: File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: سپریم کورٹ نے سویلینزکے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ کی تشکیل سےمتعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل سنایا جائے گا۔

 سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنیچ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کی،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحیی آفریدی کیساتھ ساتھ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بنچ کا حصہ ہیں، کیس کی سماعت کے دوران وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ سے بینچ کی تشکیل پر اعتراض بھی ختم ہوجائے گا، درخواست میں واضح لکھا ہے کہ اس مقام پر فل کورٹ بنانے سے کیس متاثر نہیں ہوگا۔

 فیصل صدیقی نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے اس کیس کے دوران کسی سویلین کا فوجی ٹرائل نہیں ہوگا، عدالتی نظیر ہےکچھ ججز سماعت سےمعذرت کرلیں توبقیہ ججزکا فل کورٹ بنایا جاسکتا ہے، جو حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراضات کیے گئے ان سے کوئی تعلق نہیں، 3 ججز نے کیس سننے سے معذرت کی اوروہ فل کورٹ کا حصہ نہیں ہوسکتے۔

 اے پولیٹکل بہتر الفاظ نہیں ہیں، چیف جسٹس

  سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس پاکستان  کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے فیصل صدیقی کی فل کورٹ کیلئے درخواست ہے، ایک درخواست خواجہ احمد حسین کی بھی ہے،

 فیصل صدیقی کے آنے تک خواجہ احمد حسین کو سن لیتے ہیں،  وکیل احمد حسین نے کہا کہ جواد ایس خواجہ کی جانب سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے سابقہ عہدے کا کوئی استعمال نہیں کر رہے،  جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جواد ایس خواجہ ایک گوشہ نشین آدمی ہیں،جواد ایس خواجہ کا بے حد احترام کرتے ہیں، وہ اے پولیٹیکل ہیں، 

 چیف جسٹس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اے پولیٹیکل بہتر لفظ نہیں وہ غیر سیاسی ہیں،  چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فیصل صدیقی چھپ گئے ہیں؟۔

 فوجی تحویل میں موجود افراد کی لسٹ  پیش

 اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فوجی تحویل میں 102 افراد کے ناموں کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کر دی ، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ فیصل صدیقی کے آنے تک کچھ کہنا چاہتے ہیں تو آ جائیں،چیف جسٹس  نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے فل کورٹ بنانے کی درخواست دیکھی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصل صدیقی کی درخواست دیکھی لیکن پہلے گرفتار افراد کی فہرست سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

 یہ بھی پڑھیں: گرمیوں کی چھٹیاں ختم،سندھ بھر میں تعلیمی ادارے کھل گئے

 جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کس میکنزم کے تحت پک اینڈ چوز سے یہ گرفتاریاں کی گئی ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ شواہد اور سی سی ٹی وی کے ریکارڈ کے مطابق گرفتاریاں کی گئی ہیں، 9 مئی کو جو مشتعل افراد جمع ہوئے ان کی فوٹیج ٹی وی پر بھی چلی،جسٹس مظاہر نقوی نے پھر سوال کیا کہ ان 102 افراد کے علاوہ باقی افراد کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت بغور دیکھے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے صرف102 افراد کو ہی گرفتار کیا گیا۔

 پک اینڈ چوز کی قانون میں اجازت نہیں ،جسٹس مظاہر نقوی 

 جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پک اینڈ چوز کی اجازت قانون میں نہیں ہے،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ گرفتاریوں میں پک اینڈ چوز نہیں کیا گیا،چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا 102 گرفتار افراد کے دفاعی تنصیبات پر حملے کے ڈائریکٹ شواہد ہیں؟اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا کہ ان تمام گرفتار افراد کے خلاف ٹھوس شواہد ہیں، ان 102 افراد کی جلاؤ گھیراؤ اور تنصیبات کی توڑ پھوڑ کے شواہد کے بعد گرفتاری ہوئی۔

 فیصل صدیقی کے دلائل پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ 3 ججز نے کیس سننے سے معذرت نہیں کی، موجودہ کیس میں صرف ایک جج نے کیس سننے سے معذرت کی ہے، کیس سننے سے معذرت تو ذاتی وجوہات کی بنا پرکی جاتی ہے۔

 جسٹس مظاہر نے کہا کہ آپ اس وقت فل کورٹ کا مطالبہ کررہے ہیں جب آپ اپنی درخواست پردلائل دے چکے۔

 فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے فل کورٹ کی یہ پہلی درخواست ہے، بہترہوگا باقی درخواست گزاروں سے بھی فل کورٹ پر مؤقف لے لیا جائے۔

 اس موقع پر درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ اس طرح کی درخواستوں کا تاخیر سے آنا کیس کے مقصد کو مکروہ کرنے کے مترادف ہے، مجھے اس بینچ اور سپریم کورٹ پر مکمل اعتماد ہے، مارشل لاء میں بھی عدالتوں میں پیش ہوتا رہا ہوں، پہلے 7 ججزکے معاملے میں چار تین کا تنازع بنایا گیا، عدالت کو اس کیس کا فوری فیصلہ کرکے تنازعات کا راستہ بند کردینا چاہیے۔

 دوران سماعت لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چاہتے تھے کہ فل کورٹ کیس سنے لیکن یہ تکنیکی بنیادوں پر ممکن نہیں، حکومت کی جانب سے اس کیس کا مذاق بنایا جارہا ہے، اپنے 50 سالہ وکالت کے تجربے میں یہ حالات نہیں دیکھے، ججزکے درمیان تقسیم کا پوری دنیا کو معلوم ہے، ایسے میں فل کورٹ کی درخواست صرف وقت کا ضیاع ہے،اس موقع پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ بہترین موقع ہے سپریم کورٹ فوجی عدالتوں سے متعلق ایک ہی بارفیصلہ کردے، ملکی تاریخ میں پہلی بار اختیار عدالت کے ہاتھ میں ہے۔

 بینچ پر مکمل اعتماد ہے ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن 

 اس دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نےفل کورٹ بنانے کی مخالفت کی اور وکیل عابد زبیری نے کہا کہ بار کو بھی اس بینچ پر مکمل اعتماد ہے،دوران سماعت فیصل صدیقی اور زمان وردگ کے سوا تمام درخواست گزاروں نے فل کورٹ کی مخالفت کردی جب کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے بھی فل کورٹ بنانے کی مخالفت کی۔

 بعد ازاں عدالت نے فل کورٹ کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ابھی اس معاملے پر مشاورت کریں گے، اگر ابھی مشاورت مکمل ہوگئی تو 15 منٹ میں مناسب رائے سے آگاہ کردیں گے، اگر مشاورت مکمل نہ ہوئی تو کل آگاہ کردیا جائے،دوسری جانب کورٹ ایسوسی ایٹ کا کہنا ہےکہ اس کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے اور کیس سے م