ویب ڈیسک : سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی66ویں سالگرہ آج ملک بھر میں منائی گئی۔
آصف علی زرداری 26 جولائی 1955 کو حاکم علی زرداری کے گھر میں پیدا ہوئے جو پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ابتدائی سیاسی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بعد ازاں حاکم علی زرداری نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
زرداری فیملی سیاست اور کاروبار دونوں میں ابتدا ہی سے متحرک رہی۔ آصف علی زرداری سینٹ پیٹرکس اسکول کے بعد کیڈٹ کالج پٹارو سے تعلیم یافتہ ہیں۔ آصف علی زرداری نے بطور چائلڈ اسٹار پاکستانی فلم سالگرہ میں اداکاری کی تھی جو غالباً 1969 میں ریلیز ہوئی تھی۔ پاکستانی فلم سالگرہ میں آصف علی زرداری نے لیجنڈری اداکار وحید مراد کے بچپن کا کردار ادا کیا تھا۔ سن 1987ء میں آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ شادی کی۔ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے صدمے سے ابھی تک سنبھلی نہیں تھی، اِس لیے سابق وزیرِ اعظم بے نظیر کی شادی نے جیالوں کے چہروں پر خوشیاں اور پارٹی میں امیدیں بکھیر دیں۔
چہرے پر مخالفین کو چڑا دینے والی مسکراہٹ اور دلیری کا وصف آصف زرداری کی شروع سے پہچان ہے۔1988 میں بےنظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے پر وہ اسلام آباد پہنچے تو ان پر الزامات کا طومار باندھ دیا گیا مسٹر ٹین پرسینٹ سے لے کر سرے محل اور ہیروں کے ہار کی داستانیں گڑھی اور سنائی جاتی رہیں۔ 1990 میں بے نظیر حکومت کی برطرفی عمل میں آئی تو آصف زرداری کو اندر کر دیا گیا اور وہ جیل سے تب باہر آئے جب صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں توڑیں اورآصف زرداری نےبلخ شیر مزاری نگران وزیر اعظم کی کابینہ میں نگران وزیر کے طور پر حلف اٹھایا۔مسلم لیگ ن کے دور میں زرداری کے ساتھ جیل میں بہت برا سلوک روا رکھا گیا۔ کبھی آصف زرداری کو ایک جیل میں رکھا جاتا تو کبھی دوسری میں۔ اور ملاقات کے لئے بے نظیر بھٹو بچوں سمیت ایک جیل سے دوسری جیل کے چکر کاٹتی رہتی تھیں۔ اسی دوران صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر کرپشن کے 19 ریفرنسز فائل کیے۔
پانچ نومبر 1996 کو دوسری بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس سمیت کرپشن کے درجنوں مقدمات میں آ گیا۔ زرداری 1996 میں دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اور 2004 میں رہا ہوئے۔ اس طرح 1990 سے لے کر 2004 تک زرداری تقریباَ 11 برس تک جیل میں رہے۔ وہ شاید پاکستان میں جی ایم سید کے بعد سب سے طویل مدت تک جیلیں کاٹنے والے سیاستدان ہیں۔ نواز شریف کے پہلے دونوں ادوار میں آصف علی زرداری مکمل طور پر قید رہے، وہ ایک بار ضمانت پر بھی رہا نہیں ہوئے۔ حتٰی کہ اُنھیں والدہ کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے پیرول پر رہا تک نہ کیا گیا ۔انھوں نے جیل اس بہادری سے کاٹی کہ نظریاتی مخالف مجید نظامی نے انھیں مرد حر کا خطاب دے دیا۔27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کی شہادت پر کھپے پاکستان کا نعرہ لگا کر آصف علی زرداری صبر اور خاموشی کے ساتھ تابوت اٹھا کر گڑھی خدا بخش لے گئے۔ جیلیں بھلا دیں اور قتل فراموش کر دیئے۔
مرد حر کے سیاسی سفرکی معراج ایوان صدر بنا وہ9 ستمبر 2008ء سے لے کر 8 ستمبر 2013ء تک پاکستان کے صدر رہے۔آج کل سابق صدر آصف علی زرداری کو پاکستان تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت کی طرف سے سیاسی محاذ آرائی کا سامنا ہے۔ بدعنوانی کے مقدمات میں فردِ جرم کی صدائیں گونج رہی ہیں تاہم تمام تر مشکلات کے باوجود آصف علی زرداری ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں جو ان کی سیاست کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ ایک سندھی دانشور کے بقول پاکستان کی دیواروں پہ لکھا ہوا یہ نعرہ آصف علی زرداری کو رہا کرو کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا۔