قانون توڑنے والے اشخاص کا نام لے کر مذمت کریں: جسٹس قاضی فائز عیسی

 قانون توڑنے والے اشخاص کا نام لے کر مذمت کریں: جسٹس قاضی فائز عیسی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ملک اشرف) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قانون توڑنے والے اشخاص کا نام لے کر مذمت کریں، اداروں کو برا بھلا مت کہیں۔
لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ چھوتھی سالانہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ انہیں عاصمہ جہانگیر کیلئے مزاحمت کا لفظ اچھا لگا،  انہوں نے کہا کہ وہ اس بنچ کا حصہ تھے جس میں فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ آیا تھا۔
جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم لکھی ہوئی ہے، اس میں سے ایک ادارہ عدلیہ بھی ہے۔ پاکستان کو جمہوری انداز میں حاصل کیا گیا اور اس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آئین کو تحلیل کیا گیا۔ جمہوریت پر پہلا حملہ ایک بیوروکریٹ غلام محمد نے کیا، مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل کو چیلنج کیا، سندھ ہائیکورٹ نے اسمبلی کی تحلیل کو کالعدم قرار دیا لیکن وفاقی عدالت نے تحلیل کے احکامات کو برقرار رکھا۔ دوسرا حملہ 1956ء میں ہوا جب آئین کو بنے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔

جسٹس فائز عیسٰی نے کہا یہ حملہ اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے کیا یہ بھی ایگزیکٹو کی طرف سے حملہ تھا۔ جمہوریت پر تیسرا حملہ ضیاء الحق نے کیا تھا، آئین پھاڑ دیا گیا اور اس کے خلاف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا گیا۔ چوتھا حملہ مشرف نے آئین توڑ کر کیا۔ سپریم کورٹ نے ریاست کے تنخواہ دار ملازم مشرف کو آئین کی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا حالانکہ ججز خود بھی تنخواہ دار ملازم تھے جنہوں ایک تنخواہ دار کو اختیار دیا۔ ان فیصلوں پر ججز کی مذمت کریں، سپریم کورٹ کی مذمت نہ کریں۔  آئین توڑنے والے جرنیلوں کا نام لے کر مذمت کریں نہ کہ فوج کی بطور ادارہ مذمت کی جائے۔

  فائز عیسٰی نے مزید  کہا کہ  ان کے سمیت سب آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت قانون و آئین کے پابند ہیں، ریاست عوام کے پیسوں سے تنخواہ دیتی ہے اور عوامی نمائندے بھی اسٹائپنڈ عوام سے لیتے ہیں۔ پاکستان کے عوام چاہیں تو ہمیں انفرادی طور پر احتساب کے کہڑے میں لا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک وزیراعظم کو نااہل کیا گیا کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی۔ وہ فیصلے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے لیکن فیصلے میں لکھا گیا کہ وزیراعظم نے جو تنخواہ بیٹے سے لینی تھی مگر لی نہیں وہ نہیں بتائی۔ آپ نے سچ نہیں بولا اس لئے آپ اچھے مسلمان نہیں ہیں۔
پاکستان میں پلاٹوں کی سیاست بہت مشہور ہے، میں دوسرے اداروں کی طرف انگلی نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ اگر ایک انگلی کسی کی طرف اٹھاؤں گا تو باقی انگلیاں میری طرف ہوں گی۔