خاور نعیم ہاشمی
کہانی لکھنے سے پہلے تمہید باندھنا ہوتی تو بے وقوفی ہی ہے ،لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو لکھنا واقعی مشکل ہوتی ہیں ۔آج چھوٹی سی کہانی لمبی تمہید کے ساتھ ...
عورت ایک کہانی ہے،عورت ایک پہیلی ہے،ایک عورت تین کہانیاں، صنف نازک کے بارے میں ہر معاشرے میں کئی کئی محاورے اور داستانیں موجود ہیں، لڑکی جنم لیتی ہے تو آج بھی بےشمار خاندانوں کے لئے، کتنی ہی ماؤں کیلئے طعنہ بن جاتی ہے، بوجھ بن جاتی ہے۔ عدم مساوات کا شکار ہوتی ہے،بوجھ سمجھی جاتی ہے، بے شمار محرومیاں ساتھ لئے پروان چڑھتی ہے، بار بار مرتی ہے، چپ رہتی ہے، کئی لڑکیاں تو ایک جہنم سے دوسرے جہنم تک آتے جاتے ہی عمر تمام کر دیتی ہیں، غربت زدہ اور لوئر مڈل کلاس گھرانوں میں عورت کو عورت ہونے کی سزا ملتی ہے، سفید پوش گھرانے میں پیدا ہونے کی سزا۔ غریب کی جھونپڑی میں آنکھ کھولنے کی سزا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایک ملک، جس کی آزادی کے لئے ہزاروں بہنوں، بیٹیوں کو اپنی عصمتوں، اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑی، آزادی کے بعد سے ابتک یہاں غربت کی کوکھ میں پلنے بڑھنے والیاں کم عمری ہی میں ذہنی طور پر بالغ ہوجاتی ہیں، بہت ذہین ہوتی ہیں غریب کی بیٹیاں۔۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی ضرورتوں نے ان خاندانوں کو معدوم کر دیا ہے، جہاں لڑکیوں کی نوکری کو معیوب سمجھا جاتا تھا، اب تو بہو بھی گھر لانے سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کماتی کتنا ہے؟ کس عہدے پر ہے؟ تنخواہ کتنی ہے؟
اخبارات کے صفحات ہر روز بھرے ہوتے ہیں'' ضرورت مندوں '' کے مختصر اشتہارات سے، ضرورت ہےایک لیڈی سیکرٹری کی، اعلی تعلیم یافتہ بھی ہو، خوش شکل بھی، غیر شادی شدہ کو ترجیح دی جائے گی، مارکیٹنگ کے لئے بھی پر کشش تنخواہ پر پڑھی لکھی لڑکیوں کو تلاش کیا جاتا ہے، نوکری ملنا آسان نہیں، مل جائے تو معجزہ ہی ہوتا ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ کوئی ہاتھ نہ ہوا ہو، لاہور شہر میں بھی''شکروں'' نے ہزاروں دفاتر کھول رکھے ہیں، جہاں پڑھی لکھی ضرورت مند لڑکیوں کو بٹھا کر سادہ لوح لوگوں کو بڑی بڑی رقوم سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور کئی لڑکیاں خود انہی راہوں پر چل پڑتی ہیں، بے روزگار بھائیوں کی بہنوں، بیمار باپ، بیوہ ماؤں کی بیٹیوں کو بڑے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں جب نوکری کے لئے کہیں پھنس جاتی ہیں وہ۔۔ اور تو اور کئی نجی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں بچوں سے فیسیں ہزاروں میں لی جااتی ہیں اور استانیوں کو تنخواہیں سیکڑوں میں دی جاتی ہے، بہت ساری این جی اوز میں جو ہوتا ہے، ناقابل بیان ہے، چلیں، آپ کو اسی موضوع پر ایک کہانی سناتے ہیں، جو ماضی قریب کی ہی کہانی ہے۔۔
وہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ شہر آئی تھی، اعلی تعلیم حاصل کرنے، گاؤں میں تھوڑی سی زمین تھی، ماں خرچہ بھجوا دیتی، دونوں بہن بھائی کرائے کے مکان میں رہتے رہے، لڑکی نے یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کر نے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کر دی، کئی جگہوں پر چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کیں، این جی اوز کے لئے کام کرتی رہی، بھائی ابھی تھرڈ ائر میں پڑھ رہا تھا، اسی دوران اسے ایک اچھی سرکاری نوکری مل گئی، اسے اپنے خواب پورے ہوتے دکھائی دے رہے تھے، پہلے دن آفس جانے کے لئے اس نے اچھا لباس زیب تن کیا، دفتر گئی تو سب سے پہلا احساس یہ ہوا کہ لوگ اپنی نئی کولیگ کے نہیں، ایک لڑکی کے منتظر تھے، باس نے پہلے ہی دن گھنٹوں بلا سبب سامنے بٹھائے رکھا، اس کے چہرے، اس کے قد و قامت، اس کے سراپا کی تعریفیں کی گئیں، ڈنرکی دعوت ملی، باس کے کمرے سے نکلی تو سب نگاہیں اس پر مرکوز تھیں، وہ محسوس کر رہی تھی جیسے چوری کرتی ہوئی پکڑی گئی ہو، دو چار دن گزرے تو چھوٹے باس نے بھی دل پشوری شروع کردیا۔ اس نے تو براہ راست عشق فرمانا شروع کر دیا، یک نہ شد دو شد،، آفس میں یہ بات پھیل گئی کہ نئی لڑکی پر بڑے صاحبان میں ٹھن گئی ہے، اس لڑکی کے لئے زندگی پھر مشکل ہونے لگی، اس ایشو پر اس نےکچھ لوگوں سے بات کی، کچھ لوگوں سے مددچاہی، کوئی کیا کر سکتا تھا اس کے لئے؟
ایک جاننے والے نے یہ سارا ماجرا سنایا تو میں نے جواب دیا کہ واقعی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ ایسے بہت واقعات ہو ریے ہیں، لیکن لڑکیاں اپنے گھرانوں اور خاندانوں کی بدنامی کے خوف سے سامنے نہیں آتیں، اس آدمی نے بتایا کہ اس نے بلا اجازت میرا فون نمبر اسے دیدیا ہے، مجھے یہ بات بری تو لگی، مگر خاموش رہا۔ کئی دنوں بعد ایک سرکاری نمبر سے مجھے کال آئی، ایک لڑکی کہہ رہی تھی، دیکھیں ،یہ کیا حرامزدگی کر رہاہے اپنے کمرے میں، مجھے نوچ رہا ہے، اچانک لائن کٹ گئی، میں نے اس نمبر پر کال کی،تو نمبر مصروف ملا، پانچ منٹ بعد اسی سرکاری نمبر سے پھر کال ائی، مردانہ آواز تھی، مجھ سے پوچھا گیا کہ یہ کہاں کا نمبر ہے، میں نے بتایا تو اس نے لائن کاٹ دی، اگلے دن اس لڑکی نے اپنے موبائل سے کال کرکے گزرے دن کی کہانی سنائی، اس سرکاری افسر نے میری تصدیق کرکے اس لڑکی کی جان چھوڑ دی تھی، میں نے لڑکی کو مشورہ دیا کہ وہ یہ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتی، ، کیسے چھوڑ دوں یہ نوکری، آپ کو کیا پتہ کتنی قربانیاں دی ہیں، اس ملازمت کے لئے۔ کتنی راتیں بھو کے رہ کر گزاری ہیں، کیا کیا نہیں برداشت کیا، کیا کیا نہیں جھیلا اس ملازمت کے لئے۔۔۔