سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کےخلاف کیس میں فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مستردکردی

Supreme Court rejects the federal government's plea for the constitution of Full Court in the case about the civilians trial in the Military Courts, City42
کیپشن: File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر  وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی اور مقدمہ کی مزید سماعت کل بدھ تک ملتوی کر دی۔

 چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔ وفاقی حکومت نےگزشتہ روز  سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپنا31 صفحات پر مشتمل تحریری جواب جمع کرا دیا تھا جس میں  وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

منگل کے روز کورٹ روم نمبر ون میں سماعت کا آغاز  ہوا تو  درخواست گزار صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرادیا ہے، میں سپریم کورٹ بار  ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

عابد زبیری کے دلائل،  چیف جسٹس اور ججوں سے مکالمہ

عابد زبیری: میری پانچ معروضات ہیں

چیف جسٹس: آپ بات کر سکتے ہیں جو  بولنا ہے بتائیے۔

 عابد زبیری: عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کیطرف دلانا چاہتا ہوں۔

آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف افواج کے اہلکاروں کا ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلنز کے ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم درکار ہوگی۔

21ویں آئینی ترمیم کیس میں قرار دیا گیا کہ ایسا قانون لاگو نہیں ہو سکتا جس سے بنیادی حقوق معطل ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے 21ویں آئینی ترمیم فیصلے میں قرار دیا کہ فوجی عدالتیں سویلینز کے ٹرائل کی عدالتیں نہیں۔

میری درخواست میں آرٹیکل 245 کے تحت افواج طلب کرنے کا معاملہ بھی ہے۔

سپریم کورٹ نے ایف بی علی کیس میں کہا کہ سویلین دفاعی معاملات میں ملوث نکلے تو ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے۔

21ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کے فیصلے میں فوجی عدالتوں سےسزاوں پر جوڈیشل ریویوکی اجازت تھی۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائےگا۔

جو سویلینز افواج کی تحویل میں ہیں ان کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی:   آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے اور فوجی ٹرائل کیلئے دفاع یا افواج کیخلاف ملزمان کا تعلق جڑنا ضروری ہے۔ کیا سویلنز کے فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ہونا ضروری ہے یا ملزمان کا دفاع یا افواج کیخلاف تعلق جوڑنا؟

وکیل عابد زبیری : پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کیخلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے، اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سے کوئی تعلق ہے تو پھر فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ناگزیر ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن: جن فیصلوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں یہ اس وقت کے ہیں جب فوجی ٹرائل سے متعلق آئینی ترمیم نہیں ہوئی تھی۔

وکیل عابد زبیری: ماضی میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت مخصوص وقت کیلئے دی گئی۔ عام شہریوں کا آرٹیکل 175 کے مطابق ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا۔

،چیف جسٹس عمر عطا بندیال: آپ کے مطابق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں۔ اگر عام شہری ملکی دفاع کیخلاف کام کریں تو پھر کیا ہوگا۔

عابد زبیری : ملک کی سلامتی یا دفاع کیخلاف عام شہری ملوث پائے جائیں تو پھر بھی آئینی ترمیم لازمی ہے۔خصوصی عدالتوں کے قیام کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔

چیف جسٹس  آف پاکستان : آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کیلئے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن :لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا، ملزمان کا فوج سے اندرونی تعلق ہو تو کیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟

چیف جسٹس آف پاکستان: کورٹ آف لاء کی آپ کی نظر میں کیا تعریف ہے؟

وکیل عابد زبیری : کورٹ آف لاء وہ ہے جہاں ملزمان کو فئیر ٹرائل اور وکیل کا حق ملے، ملزمان کو سزاوں کیخلاف ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

فل کورٹ کو یہ معاملہ سننا چاہئے، اٹارنی جنرل کی استدعا

اٹارنی جنرل:جسٹس یحی آفریدی نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں فل کورٹ کو یہ معاملہ سننا چاہیے،آرمی ایکٹ سے متعلق یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے فل کورٹ سنے۔

جسٹس عائشہ ملک: آپ نے گزشتہ سماعت پر ایک ممبر پر اعتراض کیا اب فل کورٹ بنانے کی استدعا کیسے کر رہے ہیں؟

 اٹارنی جنرل : دستیاب ممبران پر مشتمل بنچ بنانے کی استدعا کی ہے۔

جسٹس عاٸشہ ملک : کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کون سے ججز دستیاب ہیں؟ 

اٹارنی جنرل : چیف جسٹس نے فیصلہ کرنا ہے کہ کون سے ججز موجود ہیں اور ان کا بنچ بنایا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک : آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ چیف جسٹس نے دستیاب ممبران پر  مشتمل بنچ نہیں بنایا ہوگا؟ 

 جسٹس منیب اختر : میرا خیال ہے کہ آپ اپنے دلائل اسی بنچ کے سامنے جاری رکھیں۔ آپ نے ماشااللہ اتنا تفصیلی جواب جمع کرایا ہے اس پر دلائل دیں۔

 جسٹس عائشہ ملک: جب کیس شروع ہوا تو آپ کو کسی پر اعتراض نہیں تھا، پھر حکومت نے ایک جج پر اعتراض کیا اب بنچ دوبارہ بنانے کی استدعا کر رہے ہیں۔ میں آپ کا موقف سمجھنے سے قاصر ہوں۔

جسٹس منیب اختر : آپ حکومت کی ہدایت پر فل کورٹ کی استدعا کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان: اس عدالت کے ہر جج کو میں بے حد احترام دیتا ہوں،  تمام ججز کی رائے کو دیکھا جاتا ہے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے فل کورٹ کی تشکیل کے علاوہ عدالتی اعتماد کی بات کی ہے۔ یہ کیس تعطیلات کے دوران مقرر ہوا۔ تعطیلات کے دوران تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے۔  ججز کو کیس کی سماعت کیلئے اسلام آباد میں رہنے کا کہا۔  حکومت نے بنچ پر اعتراض کیا تو مجھے حیرانگی ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ جسٹس ر یٹائرڈ جواد  ایس خواجہ سے تعلق کے باعث بنچ سے الگ ہوگئے۔

معزز ججوں کی جانب سے فل کورٹ بنانے سے انکار کے بعد  وکیل عرفان قادر نے روسٹرم پر آگر بات کرنے کی کوشش  کی۔ چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور کہا محترم آپ مہربانی فرما کر بیٹھ جائیں آپ کو بعد میں سنیں گے۔

چیف جسٹس: اس بات کی خوشی ہے کہ آرمی کے زیر حراست افراد کو خاندان سے ملنے دیا جارہا ہے۔

اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا  اس وقت ججز دستیاب نہیں فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔

، چیف جسٹس نے قرار دیا کہ عوامی مفاد کے کیس میں کسی جج کا ذاتی مفاد نہیں ہوتا، بنچ 9 ججز سے کم ہو کر 6 ججز کا رہ گیا۔ اس کیس میں آئینی سوالات کے جوابات ملنا ضروری ہیں۔

تمام ججز پر مشتمل بنچ بنانا تکنیکی بنیاد پر ہی ممکن نہیں ہے۔تین ججز نے کیس سننے سے معذرت کی کچھ ججز ملک میں نہیں ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ ملک سے باہر ہیں۔ ہم مکمل سماعت کر کے آپ کو تفصیل سے سننے کا وقت دیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان : ملک میں ہر ایک فکر مند ہے کہ سویلنز کو کیسے آرمی ایکٹ کےسخت مدار سے گزارا جائے گا۔ آرمی ایکٹ ایک سخت قانون ہے۔ درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔

اب اٹارنی جنرل صاحب آپ نے تمام سوالات کے جوابات دینے ہیں۔ لطیف کھوسہ نے شروع میں ہی کہا تھا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں۔ ہر شخص تسلیم کرتا ہے 9 مئی کے واقعات سنجیدہ نوعیت کے تھے۔  کل دوبارہ کیس کی سماعت کریں گے۔اٹارنی جنرل صاحب آپ بھی سوچیں ہم بھی آپس میں مشاورت کریں گے۔

یہ کہتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ 

اس پر عرفان قادر ایڈووکیٹ نےعدالت سے دو منٹ دلائل دینے کی اجازت  طلب کی۔   جس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ "میرے ساتھی کہہ رہے ہیں ہم آپ کے دلائل کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں، آپ ایک ساتھ دلائل دیجیے گا." 

عرفان قادر کے بات کرنے کے دوران جج  نشستوں سے اٹھ کرکمرہ عدالت سے چلے گئے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ  فل کورٹ کی درخواست پر ہم آپس میں مزید مشاورت کر لیں گے۔ فل الحال فل کورٹ بنانا ممکن نہیں۔

وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی تحریری استدعا 

وفاقی حکومت نےگزشتہ روز  سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپنا جواب جمع کرا دیا تھا جس میں  وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی۔

 31 صفحات پرمشتمل جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروایا گیا  جس میں فل کورٹ بنانے کے ساتھ  فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعابھی کی گئی ہے۔


وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہےکہ درخواست گزار   ہائی کورٹس سے رجوع کرسکتے ہیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین پاکستان سے پہلے سے موجود ہیں، ان دونوں ایکٹ کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا، آرمی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں، سپریم کورٹ براہ راست اس کیس کو نہ سنے، فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

وفاقی حکومت کا موقف ہےکہ کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی بھی فل کورٹ بنانے کی رائے دے چکے ہیں،9 مئی کو فوجی تنصیبات کو منظم انداز میں نشانہ بنایا گیا، 9 مئی کے واقعات میں منصوبہ بندی سے مسلح افواج کو نشانہ بنایا گیا، 9 مئی کو صرف پنجاب میں 62 واقعات ہوئے،کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور جی ایچ کیو کو نشانہ بنایا گیا، پی اے ایف میانوالی اور آئی ایس آئی فیصل آباد آفس کو بھی نشانہ بنایا گیا، ان حملوں میں 2 ارب 53 کروڑ 91لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا، فوجی تنصیبات کو1 ارب 98 کروڑ 29 لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ دفاعی تنصیبات اور فوجی دفاترپر حملہ براہ راست قومی سلامتی کا معاملہ ہے، غیرملکی طاقتیں پاکستان کی قومی سلامتی اور فوج کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، کلبھوشن جادھو اور شکیل آفریدی کے واقعات اس بات کے ثبوت ہیں۔