" کہانی پاکستان کے قومی ترانے کی "

Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک:   13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ نشر ہوا جس کے بول حفیظ جالندھری نے لکھے تھے جبکہ دُھن احمد غلام علی چاگلہ نے تیار کی تھی۔
قومی ترانے کی دھن اور اس کے بول تیار کرنے کا مرحلہ نہیات طویل تھا اور اس پر پاکستان بننے کے فوراً بعد سے ہی کام شروع ہو چکا تھا۔ لیکن عام طور پر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ایک موقع پر سورۃ فاتحہ کو بھی قومی ترانہ بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔
غیر ملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رخسانہ ظفر اپنی کتاب ’دی نیشنل اینتھم آف پاکستان‘ میں لکھتی ہیں کہ ’ابھی جناح حیات تھے کہ 14 جنوری 1948 کو کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ زیڈ اے بخاری نے ڈپٹی سیکریٹری وزارت داخلہ کو ایک نوٹ ارسال کیا۔‘ رخسانہ ظفر کے مطابق زیڈ اے بخاری نے اپنے نوٹ میں تحریر کیا تھا کہ ہر ملک کا اپنا قومی ترانہ ہے ماسوائے پاکستان کے۔ ’پاکستان میں چونکہ مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اس لیے اُن کی تجویز ہے کہ سورہ فاتحہ کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا جائے۔ اُنھوں نے اپنی تجویز کے جواز میں مندرجہ ذیل آٹھ نکات پیش کیے۔ (1)پاکستان کے باشندوں کی ایک بڑی اکثریت اِس سے واقف ہے.(2)اس سے دنیا کا ہر مسلمان واقف ہے.(3)اِس کا ترجمہ دنیا کی ہر بڑی زبان میں موجود ہے.(4)جب اسے روایتی طریقے سے پڑھا جائے تو اس میں موسیقیت محسوس ہوتی ہے.(5)ہماری قوم کی اکثریت کے دل میں اس کا احترام موجود ہے.(6)اسے کسی آلہ موسیقی کے ساتھ کی ضرورت نہیں.(7)یہاں تک  کہ اس سورہ کو گاندھی جی بھی عوام کے سامنے پڑھا کرتے تھے اور اُنھوں نے برسرعام اعتراف کیا تھا کہ یہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے قابل قبول ہے.(8)یہ ہمارے ملک کے دانشور اور عام تعلیم یافتہ دونوں طبقوں کو مطمئن کر سکے گی.             زیڈ اے بخاری کے اس خط کے مندرجات کا وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس کی کارروائی کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں سورہ فاتحہ کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر اپنانے کی تجویز پر سرے سے غور نہیں کیا گیا البتہ جوزف ویلش کی تیار کردہ دھن کے ریکارڈ کو ضرور سُنا گیا۔ اجلاس نے اس دھن کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور فیصلہ دیا کہ پاکستان کے نامور شعرا کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کی دعوت دی جائے، ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو ان ترانوں کا جائزہ لے اور تجویز دے کہ اُنھیں موسیقی کے قالب میں کیسے ڈھالا جائے۔

27 فروری 1948 کو یہ معاملہ کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آیا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا کہ ملک میں قومی ترانے کی موجودگی بہت ضروری ہے ۔ اس کے لیے پہلے دھن موزوں کروائی جائے اور پھر شعرائے کرام کو اس دھن سے مطابقت رکھنے والے اشعار موزوں کرنے کی دعوت دی جائے۔             21 اگست 1949 کو احمد غلام علی چاگلہ کی تیار کردہ دھن کو پاکستان کے قومی ترانے کی عارضی دھن کے طور پر منظور کرنے کا اعلان کیا گیا۔ قومی ترانے کی اس دھن کو ریڈیو پاکستان میں بہرام سہراب رستم جی نے اپنے پیانو پر بجا کر ریکارڈ کروایا تھا۔ اس دھن کا دورانیہ 80 سیکنڈ تھا اور اسے بجانے میں 21 آلاتِ موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے۔ 10 اگست 1950 کو اس کمیٹی نے احمد غلام علی چاگلہ کی دھن کو پاکستان کے مستقل قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کر لیا۔جب کمیٹی نے احمد غلام علی چاگلہ کی دھن کو پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کر لیا تو اب اس دھن سے مناسبت رکھنے والے الفاظ کی تلاش کا کام شروع ہوا۔کمیٹی نے حفیظ جالندھری اور حکیم احمد شجاع کے لکھے ہوئے ترانوں کو نسبتاً بہتر قرار دیا تاہم یہ تجویز بھی پیش کی کہ علامہ اقبال اور قاضی نذرالاسلام کی دو منظومات کو سرکاری طور پر منظور کر کے اُنھیں قومی نغمات کا درجہ دیا جائے۔

کابینہ نے یہ فیصلہ دیا کہ حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے تحریر کردہ ترانوں کے بول اس دھن سے ہم آہنگ کر کے کابینہ کے سامنے پیش کیے جائیں۔ کابینہ نے ان ترانوں کو سنا اور تجویز دی کہ ترانے کا پہلا بند زیڈ اے بخاری کے ترانے سے اور بقیہ دو بند حفیظ جالندھری کے ترانے سے منتخب کر کے ایک نیا ترانہ تیار کیا جائے تاہم حفیظ جالندھری نے اس تجویز کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور کہا کہ یا تو ان کے ترانے کو مکمل طور پر منظور کیا جائے یا مکمل طور پر مسترد کیا جائے۔ وہ اپنے ترانے میں کسی اور کے لکھے ہوئے ترانے کا جوڑ قبول نہیں کریں گے۔حفیظ جالندھری کے اس واضح مؤقف پر کابینہ نے ترانے کے انتخاب کا فیصلہ مؤخر کر دیا۔        پانچ اگست 1954 کو کابینہ کا ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کو بغیر کسی رد و بدل کے منظور کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ حفیظ جالندھری کا پاکستان کے لیے لکھا گیا ترانہ تو منظور ہوا ہی مگر یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ 1947 میں اُنھوں نے کشمیر کا قومی ترانہ تحریر کیا تھا جو آج بھی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرکاری ریڈیو سے ہر روز نشر ہوتا ہے، جس کے بول تھے ’وطن ہمارا آزاد کشمیر۔