ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حکومت پانچ سال پورے کرتی نظر نہیں آتی, سینئیر صحافی سلیم بخاری کا تجزیہ

Salim Bukhari, Analysis of Pakistani Politics, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

فرخ احمد:  مولانا فضل  الرحمان اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی اتحاد  پر سلیم بخاری صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا،  لیکن دو سیاسی حریف جو ایک دوسرے کو بُرے بُرے القابات سے پکارتے تھے , اس کو منافقت کہا جائے یا 
“The king doesn’t wrong”   سلیم بخاری  نے مولانا  فضل الرحمان اور خان صاحب کو  کنگ سے تشبیہ دیتے ہوے کہا کہ کل تک تو یہ لوگ ایک دوسرے کو مولانا ڈیزل اور یہودی ایجنٹ کہتے تھے اب کیسے اتحادی بن گے، اس کو کیا منافقت کہیں یا کچھ اور؟؟
اس کے بیک گراونڈ پر  اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے  کہا کہ مولانا کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جے یو آئی کو کے پی  کی سیاست سے باہر نکال دیا ہے۔ اسی طرح خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومت کو چلتا کیا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ وہ جرنیلوں کو  کبھی میر صادق کبھی میر جعفر کے ناموں سے پکارتے تھے۔  سلیم  بخاری نے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی لیڈر شپ کو مشورہ  دیا کہ مولانا کو منانے کی ایک اور کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ  ان کا خیال ہے کہ  عمران خان اور مولانا صاحب کا اتحاد کوئی لمبا عرصہ چلنے والا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا حکومت بنانے کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر  ہوتا نطر نہیں آتا ۔ اس لیے مولانا کو منانے کی ایک سنجیدہ کوشش کرنا ضروری ہے۔مولانا صاحب کو لگتا ہے کہ شاید ان کے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پی ٹی آئی درست پلیٹ فارم ہے، لیکن سلیم بخاری  کا کہنا تھا  کہ وہ غلط سوچتے ہی۔  کیوں کہ خان صاحب انتہائی احسان فراموش انسان ہیں  اس کی مثال انہوں نے دیتے ہوئے کہا کہ کہاں ہیں جہانگیر ترین ، علیم خان، مولانا تو ان پر اتنا پیسہ نچھاور نہیں کر سکتے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئر مین کے انتخاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی کا کہنا تھا کہ اس دفعہ یہ بھی   پی ٹی آئی کو نہ ملے۔  کیوں کہ حکومت نے نئی پالیسی بنائی ہے جس کے تحت ووٹنگ کے زریعے لگتا ہے کہ یہ سیٹ بھی پیپلز پارٹی کو دیدی جائے۔
ٹیریان کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بخاری صاحب نے کہا کہ عدالتوں کواپنی   عالمی رینکنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے  فیصلوں کو احتیاط سے کرنا ہوگا۔ اور اس اثر کو زائل کرنا ہوگا کہ عدالتیں  خان صاحب کو ریلیف دے رہی ہیں۔
مسنگ پرسنز  پر  اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی خاص فرد یا ادارے کی طرف اشارہ نہیں کر رہا لیکن  ایسا  تاثر ابھر  رہا ہے  عدالتوں کو استعمال کر کے آئینی اداروں اور خاص طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی توہین کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کوئی ذی شعور شخص  کسی کے اغوا کوی،چاہے وہ کوئی بھی ہو،  حمایت نہیں کر سکتا۔ہر ایک کو آزادی اظہار کا حق  ہے۔لیکن  انہوں نے سوال کیا ،  کیا دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہوتا؟؟
جب کوئی ملکی بقا اور سلامتی کے خلاف کام کر رہا ہے، عدالتوں کے زریعے  ان کو سزا دینا ریاست کا حق ہے۔ عدالت کے رویے سے انصاف چھلکنا چاہیے۔سلیم بخاری نے کہا کہ عدلیہ کو اداروں کے بارے میں ریمارکس دینے اور احکامات دیتے ہوئے مناسب رویہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ دونوں اداروں  کے احترام میں کمی نہ واقع ہو  یا ایسا لگے کہ ادارے اپس میں دست و گریبان ہیں۔
آئی ایم ایف کی تجویز پر ادویات پر سیلز ٹیکس لگائے جانے کا امکان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے  بخاری صاحب  کا کہنا تھا کہ لوگ جھولیاں بھر بھر کر حکمرانوں کو بدعائیں دے رہے ہیں، حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا جب لو گ ہسپتال یا ڈاکٹر کے کلینک  سے باہر نکلتے ہیں تو جب ان کو پتا چلتا ہے  کہ اب میڈیسن اتنی اورمہنگی ہو گئی ہے تو ان کے منہ سے کیسی کیسی بدعائیں نکلتی ہیں ۔

لائف سیونگ ادویات کے حوالہ دیتے ہوے  پی ٹی آئی دور کے  قانون کے تحت 25 سے 65 فیصد تک ادویات  کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ لیکن ابھی بھی یہ سلسلہ رکا نہیں، اور غریب ادویات کے حصول کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے، وہ اپنے دیگر اخراجات پتہ نہیں کیساپورا کرتے ہیں اوپر سے مہنگی ادویات نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔

سلیم بخاری نے حکمرانوں کو  عوام کے غیض غضب سے بھی خبردار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت ریلیف دینے کے لیے آتی ہیں یا نچوڑنے کے لیے۔حکومت کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے اگر ایسا نہیں کرتی تو پھر عوام کے پاس بھی ایک ہتھیار ہے جس کا وہ استعمال کرکے اپنا بدلہ لیے سکتے ہیں ۔ جیسا کہ عوام نے 2024 کے عام انتخابات میں  پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کے ساتھ سلوک کیا۔انہوں  نے 2024 کے الیکشن میں شریف  فیملی خاص طور پر نواز شریف ، مریم نواز ، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی کامیابی  بھی مشکوک قرار دیدی۔

سلیم بخاری نے  اپنا تجزیہ دیتے ہوئے  حکومت کے استحکام پر بھی سوا لیہ نشان لگا دیا اور کہا یہی حالات رہے تو پانچ سال کس نے دیکھے ہیں۔ مجھے تو یہ حکومت پانچ سال پورے کرتی نظر نہیں آتی۔ان حکمرانوں کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔