ویب ڈیسک : اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی ضمانت کی دو درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کس کیس میں عمران خا ن کی گرفتاری عمل میں لائی گئی؟
جو عدالت کے احاطے میں ہوا اس سے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوئی ہے،عدالتی عمارت کے شیشے توڑے گئے ہیں جو ہوا غلط تھا۔عدالت میں آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی اٹارنی جنرل اسلام آباد پیش ہوئے، آئی جی اسلام آبادناصر اکبر نے عدالت کو بتایا کہ سیکریٹری دفاع راستے میں ہیں،5 منٹ میں آجائیں گے۔چیف جسٹس نے برہم ہوتے ہوئے کہا کہ کیا مطلب ہے راستے میں ہیں،15 منٹ کا کہہ کر 45 ہوگئے،اسلام آباد ہے، کتنا وقت لگ رہا ہے؟ مسئلہ رویئے کا ہے۔
اس موقع پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میرے علم میں آیا ہے کہ نیب نے عمران خان کو گرفتارکیا ہے،نیب نے اسلام آباد پولیس کو وارنٹ بھیجا تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کو اسلام آباد سے گرفتار کرنا تھا؟ جس پر آئی جی نے کہا کہ نہیں، عمران خان کو ہائیکورٹ سے گرفتار نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہونا چاہیے،اگر کچھ بھی خلاف قانون ہوا تو میں ایکشن لوں گا۔اس موقع پر وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ جب ضمانت کی درخواست دائر ہو جائے تو ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا،آج عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ کہاں رہ گئے ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ راستے بند ہیں اور شیلنگ ہو رہی ہے اس لیے وہ لیٹ ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے نہیں معلوم کہ نیب اس طرح بھی گرفتار کر سکتی ہے یا نہیں،اگرایجنسی کی خدمات لی جاتی ہیں تو کیا ایسے گرفتاری ہوتی ہے؟کیا یہ گرفتاری قانون کے مطابق ہے؟ اگر کوئی کارروائی کرنی ہے تو قانون کے مطابق کرنی ہو گی، وکلا پر حملہ میرے ادارے پر اور مجھ پر حملہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رینجرز وزارت دفاع کے انڈر ہیں، میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں،میرے سامنے وکلا زخمی حالت میں ہیں مجھے انہیں سننے دیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کے وارنٹس جاری تھے انکو گرفتار کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ پر عملدرآمد ہو گیا لیکن اس عدالت کے اندر ہوا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اپنے آپ کو مطمئن کرنا ہو گا کہ ہائیکورٹ میں کیا ہوا۔