نوعمر ملازمہ رضوانہ پر تشدد کی ملزمہ پر فردِ جرم عائد ہو گئی

Rizwana Torture Case, Civil Judge Islamabad, City42, Domestic violence, violence against domestic labourers, City42, Session Judge, child abuse,
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: وفاقی دارالحکومت میں جج کی بیوی کے اپنے گھر میں جبری مشقت کے لئے رکھی ہوئی نو عمر ملازمہ رضوانہ پر جنونی  تشدد کے مقدمہ میں طویل تاخیر کے بعد آخرکار فردِ جرم عائد ہو گئی۔ ملزمہ سول عاصم حفیظ کی بیوی صومیہ نے فرد جرم سن کر جرم سے انکار کر دیا۔

اسلام آباد کے سول جج عمر شبیر کی عدالت میں رضوانہ تشدد کیس کی سماعت ہوئی، کمسن بچی رضوانہ کی والدہ اپنے وکلا اور ملزمہ صومیہ عاصم اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت پیش ہوئیں۔

عدالت نے ملزمہ کو کٹہرے میں بلا کر فرد جرم پڑھ کر سنائی جس پر ملزمہ صومیہ عاصم نے صحت جرم سے انکار کردیا۔ 

 کم عمر ملازمہ پر جنونی تشدد کا مقدمہ اس وقت قومی سطح پر عوام کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا جب سرگودھا کے سول ہسپتال میں درجنوں زخموں سے چور بچی کے جسم پر موجود بعض زخموں میں طویل عرصہ علاج نہ ہونے کی خبریں سامنے آئیں،  میڈیا کے تحقیقات کرنے پر پتہ چلا کہ بچی رضوانہ کئی ماہ تک اسلام آباد میں ایک سول جج کے گھر پر ملازمت کے دوران مسلسل تشدد  کے نتیجہ میں زخموں سے چور چور ہو گئی اور اس کے زخم خراب ہونے لگے تو اس بچی کی والدہ کو گھر سے بلوا کر بچی کو اس کے ساتھ اس کے گھر سرگودھا کے گاؤں واپس بھیج دیا گیا تھا۔

 تشدد کی ہولناک تفصیلات سامنے آنے پر میڈیا میں اور سوشل میڈیا میں دباؤ ڈالا گیا تو بچی پر تشدد کا مقدمہ اسلام آباد کے سول جج کی بیوی کے خلاف درج ہوا، بعد ازاں رضوانہ تشدد کیس میں ملوچ  سول جج عاصم حفیظ کو او ایس ڈی بنادیا گیا۔ نوعمر  بچی کے زخموں کی حالت انتہائی خراب ہونے کے سبب اس کے زندہ بچنے کی امید نہیں تھی۔

تب پنجاب کے وزیر اعلیٰ سید محسن رضا نقوی نے اس مظلوم بچی کو سرگودھا سے لاہور  لا کر جنرل ہسپتال لاہور میں 14  سینئیر سپیشلسٹ ڈاکٹروں اور ماہرین کا بورڈ بنوا کر بچی کو دن رات نگہداشت میں رکھ کر اس کا علاج کروایا۔ اس دوران محسن نقوی بار بار اس بچی کی حالت دیکھنے کے لئے ہسپتال جاتے رہے۔ ان کی سپرویژن، ڈاکٹروں کی جدوجہد سے  کئی روز موت و حیات کی کش مکش میں رہنے کے بعد رضوانہ  زندہ بچ گئی تو اس کی پلاسٹک سرجری بھی کی گئی۔  کئی ماہ کے علاج کے بعد یہ بچی نارمل حالت میں آئی۔

رضوانہ پر تشدد کی تفصیلات جاننے کے بعد سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے جو چند دن بعد دوبارہ وزیر اعظم بننے والے ہیں، وزیر اعلیٰ محسن نقوی سے کہا تھا کہ  مظلوم بچی کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائےْ۔ ملزم کون ہے، اسے خاطر میں نہ لایا جائے، انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، ظالم اور قانون شکن رعایت کے مستحق نہیں۔ پولیس کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر قانون پر سختی سے عمل کرے۔معاشرہ ایسی اندھیرنگری اور ظلم وجبر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

رضوانہ تشدد کیس کی ملزمہ کو عوام کے دباؤ پر کچھ دن کے لئے  گرفتار رکھا گیا تاہم بعد میں اس کی ضمانت ہو گئی، اس وقت ضمانت پر رہا ہے۔ اس ملزمہ کے ساتھ تحقیقات کرنے کے لئے خصوصی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی گئی، سول جج کی اہلیہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئی لیکن اس نے تفتیش مین تعاون نہیں کیا۔ وہ اپنے  جوابات سے تفتیشی ٹیم کو مطمئن نہ کر سکی۔ ملزمہ اور اس کے شوہر نے مقدمہ کے تمام مراحل میں منجھے ہوئے مجرموں کی طرح عدم تعاون کا رویہ اختیار کئے رکھا۔سابق سول جج کے اثر و رسوخ کے باعث اس مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھنے کا مرحلہ معمول سے کئی ماہ بعد آیا۔ 

 جمعہ کے روز عدالت نے صومیہ عاصم کے خلاف ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کر دیا اور آئندہ سماعت پر گواہان کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کر لیا اور کیس کی سماعت 20 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔