ملزم ارسلان کی داڑھی مونچھوں والی تصویر نے فیک نیوز کا ڈراپ سین کر دیا

Arsalan, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم نامی ملزم کے  والد کی وفات کے بارے میں پھیلائی جانے والی فیک خبروں کی مہم کو ملزم کی بھرپور داڑھی مونچھوں والی تصویر  سامنے آنے سے سخت دھچکا لگا ہے۔ 

دوسری جانب ملزم ارسلان کے اہل خانہ نے بھی پی ٹی آئی کے  الزامات کی مہم سے لاتعلقی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے منسوب تمام باتیں من گھڑت  ہیں۔

9 اگست کو ضمانت منظور ہونے پر جیل سے رہا ہو کر گھر چلا گیا۔ بعد ازاں 10 اگست کو پولیس نے تفصیلات کے مطابق 9 مئی واقعات میں ملوث ارسلان نسیم مقدمہ نمبر1271/23میں تھانہ گلبرگ میں گرفتار تھا۔ بعد ازاں ملزم کو جوڈیشل کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ملزم 09 اگست2023 کو انسداد دہشتگردی عدالت سے ضمانت پر رہا ہوا تاہم ملزم ارسلان چونکہ مقدمہ نمبر 846/23مورخہ10 مئی 2023بجرم 382/341/147/149ت پ تھانہ ریس کورس میں بھی مطلوب تھا۔ اس مقدمہ میں  ملزم کو پولیس نے   زیر دفعہ 160ض ف دو مرتبہ طلب کیا مگر ارسلان نسیم طلبی کے باوجود الصالتاََ حاضر نہ ہوا۔ ملزم کو تفتیش کے لئے طلب کرنے کی غرض سے پولیس اس کے گھر  10/11اگست کی رات گئی مگر ملزم کے گھر پرتالہ لگا ہوا تھا لہذاپولیس پارٹی واپس آگئی۔

اس رات پولیس کے جانے کے بعد ارسلان کی والدہ کے اپنے بیان کے مطابق ان کے شوہر جو دل کے مریض تھے، ان کی طبعیت خراب ہوئی، انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ  فوت ہو گئے۔ متوفی کو رشتہ داروں اور محلہ والوں  کی موجودگی میں نماز جنازہ کے بعد دفنا دیا گیا۔  اس وفات کو   دو دن  گزرنے کے بعد بعض لوگوں  نے سوشل میڈیا پر پولیس کے خلاف منظم مہم شروع کر دی جس میں ایک تو یہ دعوی کیا گیا کہ 9 مئی واقعات میں  جیل سے ضمانت پر رہا ہونے والے ملزم کی عمر 13 سال ہے اور دوسرا یہ  الزام لگایا گیا کہ اس کے والد پولیس کے چھاپے کے دوران تشدد سے فوت ہوئے۔

اس حوالہ سے تحقیقات کی گئی تو پتہ چلا کہ ملزم ارسلان کی عمر کسی بھی طرح 13 سال نہیں بلکہ وہ انیس بیس سال یا اس سے زیادہ عمر کا جوان ہے۔ اس کو ڈیڑھ ماہ پولیس تحویل اور جیل میں رکھے جانے کے بعد انسداد دہشتگردی عدالت نے ایک مقدمہ میں ضمانت پر رہا کیا تاہم  یہ ضمانت منظور کرتے وقت پولیس کو دوسرے مقدمات میں تفتیش کرنے کی ممانعت نہیں کی گئی تھی۔بعد 

عمومی طریقہ کار کے مطابق ایک مقدمہ میں ضمانت کسی دوسرے  مقدمہ میں قانونی طور پر قابل قبول نہیں ہوتی۔ اس لئے پولیس نے ملزم کے گھر پر دو دفعہ اس سے رابطہ کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن اس کے والد کے ساتھ تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، نہ اس حوالے سے ملزم کی والدہ اور دیگر رشتہ داروں نے کوئی شکایت کی نہ محلہ والوں نے پولیس پر کسی برح کے تشدد کا الزام لگایا۔  دوران ریڈ تشدد کا واقعہ پیش نہ آیا ہے اور ملزم کے والدکی طبعی موت واقع ہوئی ہے۔
 دوسری طرف  لاہور پولیس نے اپنے وضاحتی بیان میں "سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم نامی شہری کے بارے میں پوسٹ جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ دوران ریڈ پولیس کے تشدد سے ارسلان کے والدجاں بحق ہو ئے" کو پروپیگنڈا، من گھڑت اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔

 ڈی آئی جی آپریشنز  ڈی آئی جی آپریشنز لاہور سید علی ناصر رضوی کی اس حوالے سےپریس کانفرنس کر کے صحافیوں کو بتایا کہ  پوسٹ جس میں یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ دوران ریڈ پولیس کے تشدد سے ارسلان کے والدجاں بحق ہو ئے، وہ" محض پروپیگنڈا، من گھڑت اور حقائق کے منافی ہے۔ 

اس سلسلہ میں ارسلان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ارسلان کے والد کی وفات کے حوالہ سے پی ٹی آئی کے بنائےہوئے جھوٹے بیانیہ  سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ارسلان کے بہنوئی نے  کہا کہ سوشل میڈیا پر ان سے منسوب کر کے من گھڑت باتیں پھیلائی گئی ہیں۔  ہمیں  آئی جی کی بنائی ہوئی تحقیقاتی ٹیم پر بھی مکمل اعتماد ہے۔  انکوائری ٹیم سے مکمل تعاون کریں گے۔