(عامر رضا ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک روز قبل چند ہم خیال صحافیوں سے ملاقات کی، اس ملاقات کے بعد جو بات باہر نکلی یا ان صحافی دوستوں نے بیان کی وہ یہ تھی کہ چند منٹ کی ہونے والی اس ملاقات میں عمران خان نے سات مرتبہ اس بات کو دہرایا کہ سابق آرمی چیف جنرل( ر) قمر جاوید باجوہ کو توسیع مدت ملازمت دینا اُن ( عمران خان ) کی سب سے بڑی غلطی تھی ، ویسے انہوں نے "بلنڈر" کا لفظ استعمال کیا ، اس غلطی کو انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا اور کہا کہ باجوہ نے میری حکومت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا
اب دوسری طرف کی بات بھی سُن لیں ایک کالمی صحافی نما اینکر کو ایک مبینہ انٹرویو میں جنرل باجوہ نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ عمران خان کو 22 کروڑ عوام کے سر پر مسلط کرنے میں مدد کرنا اُن کی غلطی تھی اب کس کس کی کیا غلطی تھی اس بات سے قطع نظر ان دونوں کی انفرادی غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو آج کے دن تک بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ عمران خان کی سیاست ایسی کئی ایک غلطیوں کا مجموعہ ہے اُن کا ایک موقف تھا کہ نواز شریف کو باہر بجھوانا اُن کی غلطی تھی پھر کہا کہ وہ عوام کی خدمت نہیں کرسکے کیونکہ اُن کے ہاتھ بندھے تھے یہ بھی غلطی تھی پھر موقف اختیار کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس تاخیر سے جانا غلطی تھی، جو معاہدہ کیا وہ بھی ایک غلطی تھی ،اسمبلی میں اپنے اراکین کو سنبھال نہ پایا یہ بھی غلطی تھی ، ایک محفل میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ قومی اسمبلی سے نکل جانا بھی غلطی تھی ، امریکا پر جو الزام لگایا وہ بھی ایک غلطی تھی ، لانگ مارچ کا پنڈی میں اختتام کرنا بھی غلطی تھی ، اس کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنا بھی غلطی تھی یہ وہ اعترافات جو وہ خود کرتے ہیں لیکن ان کے ناقدین کے خیال میں عمران خان نے جس طرح کٹھ پُتلی بن کہ اسٹیبلشمنٹ یا یوں کہیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے سامنے گھٹنے ٹیکے یہ اُن کی سیاست کی سب سے بڑی غلطی تھی جس نے عمران خان کے اس امیج کو شدید نقصان پہنچایا جس کے مطابق وہ ملک میں بڑی تبدیلی لاسکتے تھے ۔
عمران خان کی تازہ ترین غلطی کا بھی یہاں ذکر نہ کیا جائے تو زیادتی ہوگی موصوف نے چند دن پہلے ’ جیل بھرو تحریک ‘کا اعلان کیا اور کہا کہ قوم میرے ساتھ جیل بھرو تحریک میں شامل ہوں ، اعلان تو ہوگیا لین بندے کہاں سے آئیں گے یہ وہ سوال تھا جس پر سابق اراکین اسمبلی بشمول سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سوال اٹھایا اس مسلے پر مشرقی پاکستان سانحے کے ایک کردار جنرل عمر کے صاحبزادے نے پیر زادے کو ہاتھوں ہاتھ لیا معاملہ تو رفع دفع ہوگیا لیکن عمران خان حالات کی نزاکت کو سمجھنے لگے انہوں نے اس میٹنگ میں اراکین کو یقین دلایا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے اعلان سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کریں گے ہمارے ذرائع کی بات یوں سچ ثابت ہوئی کہ میٹنگ کے اگلے روز ہی عمران خان صاحب نے انصافی بھائیوں کے خطاب میں کہا کہ وہ فوری جیل جانے کی تحریک کا آغاز نہیں کر رہے پہلے وہ یہ دیکھیں گے کہ حکومت نوے روز میں انتخابات کراتی ہے یا نہیں اور اگر نوے روز میں انتخابات نہ ہوئے تو اس کے بعد وہ جیل بھرو تحریک کا اعلان کریں گے ، اس جیل بھرو تحریک نے اُن کے مخالفین کو ان کے پارٹی ورکروں کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’جیل بھرو نہیں ڈوب مرو تحریک کا آغاز کرو ، ایک صاحب نے خان کا ٹھکانہ جیل خانہ کا نعرہ لگایا ، کسی نے جیل بھرو تحریک کا فارم بنا کر اپ لوڈ کردیا کہ جس میں کوائف کے نیچے نوٹ لکھا تھا کہ " جیل میں وائی فائی اور نشے کی سہولت میسر نہیں ہوگی " ایک دوست نے عمران خان کو مچھ جیل میں رکھنے کا مشورہ دیا تو کسی نے اسی جیل کی مرچی بیرک کی صفائی کی خبر دی .
مرچی بیرک کے نام سے شائد کچھ لوگوں کے ذہن میں مرچوں والا ڈندا اور جنسی تشدد ذہن میں آئے ایسا کچھ نہیں ہے، یہ جیل 1928 میں انگریز دور میں تعمیر کی گئی جس کا مقصد قیدیوں کو گرم ترین علاقوں میں سزا دینا تھا یہاں اگر کوئی قیدی تنگ کرتا تو اسے الگ سے ایک بیرک میں رکھا جاتا اور کھانوں میں اتنی مرچ ڈالی جاتی کہ وہ بھوک سے نڈھال ہوتا تو کھانا کھانے کی کوشش کرتا تو کھایا نہ جاتا یوں اُس کے پاس راہ راست پر آنے کے سوا کوئی راستہ نہ بچتا تھا ۔
بات نکلی تھی غلطیوں کی تو مرچی بیرک تک پہنچ گئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی نے سنجیدہ بات کی تھی جسے جذباتی سیاسی نو وردئیے سمجھ نہیں سکتے اسی طرح چودھری پرویز الہیٰ بھی عمران خان کو سمجھاتے رہے لیکن جذباتی دوستوں نے اُنہیں بند گلی میں لا کھڑا کیا اور آج وہ جب زمان پارک میں عورتوں اور بچوں کے حصار میں بیٹھ کر اپنے ضمیر کے ہاتھوں ذہنی تشدد ضرور اٹھا رہے ہوں گے کہ وہ تو پہلے سے ہی قید ہیں باہر نکل نہیں سکتے اور اپوزیشن میں ہونے کے باوجود لوگوں میں رابطہ مہم نہیں چلاسکتے اس پر اپنی مبینہ بیٹی ٹیریان خان جو اُن کی جوانی کی غلطی کہی جارہی ہے اُس کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی ہے ۔ آنے والے دنوں میں جو کچھ ہوگا اُس میں بڑا حصہ عمران خان کی غلطیوں کا ہوگا کیونکہ مکافات عمل کی چکی بہت آہستہ چلتی ہے لیکن پیستی بہت باریک ہے ۔