قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری دے دی

قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری دے دی
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دے دی۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کا جائزہ لیا گیا جب کہ اس دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ کل قومی اسمبلی نے کہا کہ کوئی ایسا قانون نہ بنائیں جس کو چیلنج کیا جائے، بل کو غور کے لیے کمیٹی کے سپرد کیا گیا، بل کا مقصد ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت میں شفاف کارروائی ہو، یہ بل بار کونسلز اور شراکت داروں کا پرانا مطالبہ تھا، بار کونسلز کا کہنا تھا کہ 184/3 کے بے دریغ استعمال کوروکا جائے۔انہوں نے کہا کہ اہم نوعیت کے کیسز کی 6،6 ماہ سماعت نہیں ہوتی، سپریم کورٹ کے اندر سے بھی آوازیں آئیں، وقت تھا کہ پارلیمان اب اس پر قانون سازی کرے۔اس موقع پر نفیسہ شاہ نے کہا کہ ہم سب اس موجودہ صورت حال سے پریشان ہوئے، آئے دن از خود نوٹس ہوئے، اسے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، کچھ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کل سو موٹو کے ذریعے اس بل کو ختم نہ کردیا جائے۔

وزیر قانون نے کہا کہ 184/3 کا بے دریغ استعمال 2007/08 سے شروع ہوا، افتخار چوہدری  کے بعد تین ججز نے از خود نوٹس لینے سے اجتناب کیا، پھر ثاقب نثار نے از خود نوٹس کا بے دریغ استعمال کیا، آواز اٹھی کہ ون مین شو نہیں ہونا چاہیے، حالیہ دنوں میں دو ججز کا بھی اس سے متعلق فیصلہ آگیا ہے، کہا گیا کہ پارلیمان اس پر قانون لےکر آئے، اب عدالت کے سامنے معاملہ جاتا ہے تو ری ایکشن آئے گا۔

اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ بل میں تجویز کردہ کمیٹی معاملے کو ریگولیٹ کرے گی، ابھی 2 سال سے آپ کو دو سینئر ججز کسی بینچ میں نظر نہیں آئے۔بعد ازاں قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دے دی۔

ترمیمی بل کیا ہے؟

بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائے گا جب کہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے۔ترمیمی بل کے مطابق از خود نوٹس کا فیصلہ تین سینئر ججز کریں گے، تین رکنی سینئر  ججز کی کمیٹی از خودنوٹس کا فیصلہ کرے گی۔ترمیمی بل کے تحت از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق ہوگا اور 30 دن میں اپیل دائر ہوسکے گی، اپیل کو دو ہفتوں میں فکس کیا جائے گا۔

Ansa Awais

Content Writer