(ملک اشرف) نے یکساں تعلیمی نصاب لاگو کرنے کیلئے بڑا فیصلہ جاری کر دیا ، جسٹس جواد حسن نے قرار دیا ہے کہ یکساں تعلیمی نصاب سے ہی لازمی تعلیم کا آئینی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے، قمید کی جاتی ہے کہ جماعت اول سے پنجم تک یکساں نظام تعلیم کا اقدام پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔وفاقی حکومت اگر صوبوں کی باہمی ہم آہنگی سے یکساں نظام تعلیم نافذ کرے تو تعلیم کا معیار مزید بہتر ہو سکتا ہے.
جسٹس جواد حسن نے جماعت اول سے پنجم تک یکساں نظام تعلیم کیخلاف درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔عدالت کے 24 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کو عدالتی نظیر بھی قرار دیا گیا ہے ۔ تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جب یکساں تعلیمی نصاب اپنا لیا گیا تو آئین کے تحت کم از کم عرصے میں لازمی تعلیم دینے کا مقصد حاصل ہو جائے گا، اگر پوری قوم ایک نکتے ، ایک طریقہ کار اور ایک نمونے پر اکٹھی ہو جائے تو آئین میں دیئے گئے تعلیم کے مقصد کو حاصل کرنے میں آسانی ہو گی، بچے بھی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی پالیسی کے تحت بنائے یکساں نظام تعلیم کا انتخاب کرنے کے پابند ہوں گے، تعلیم کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہو تی ہے جو معاشرتی خوشحالی کا سبب بنتی ہے۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ تعلیم کسی بھی معاشرے میں سیاسی و معاشی استحکام اور صحت مند معاشرے قائم کرنے کی وجہ بنتی ہے، اگر معاشرے میں تعلیمی فقدان آ جائے تو معاشرے کی ترقی جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ تعلیمی لازمی طور پر کسی فرد کو اپنے ساتھیوں کے درمیان عزت کے مقام پر کھڑا کرتی ہے، یقینا تعلیم کسی ملک اور معاشرے کی ترقی کا راز ہوتی ہے اور ایجادات کا سبب ہوتی ہے۔
یکساں نظام تعلیم سے نہ صرف قومی اتحاد مضبوط ہو گا بلکہ کم از کم تعلیم کا معیار بھی مقرر ہو سکے گا۔یکساں نظام تعلیم سے تعلیم معیار اور تعلیمی مساوات کو بھی تحفظ ملے گا، تعلیم معاشرے میں موجود امیر اور غریب کے فرق کو ختم کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے، معیاری تعلیم مساوات پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ ہو سکتی ہے۔معیاری تعلیم ہر مرد و خاتون، امیر اور غریب کی آواز اور طاقت کو یکساں کرتی ہے، انتہائی غیر متوازن تعلیم نہ صرف معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرتی ہے بلکہ معاشرے میں اضطراب بھی پیدا کرتی ہے۔
ایک قوم ایک تعلیمی نصاب کا نظریہ کوئی نیا نہیں ہے۔دنیا بھر کے ماہرین تعلیم ایک قوم ایک تعلیمی نصاب کی وکالت کر چکے ہیں، ماہرین تعلیم دنیا بھر میں یکساں تعلیمی نصاب کے فوائد اور نقصانات بارے بھی آواز اٹھا چکے ہیں، فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ یکسانیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی خاص نصاب کو لاگو کر دیا جائے، تمام موجود مواقع کو اکٹھا کرنا، تجزیہ کرنا اور بہترین آپشن کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اتحاد کا مطلب ہے کہ رائے اور نظریات میں جدت لائی جائے، تحریری فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ قرآن پاک میں موجود ہے کہ اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی وحی میں " اقراء" کا حکم دیا، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق قرار داد میں بھی تعلیم ہر کسی کا حق قرار دیا گیا ہے، اقوام متحدہ کی قرار داد میں کم از کم بنیادی سطح یا میٹرک تک مفت تعلیم کا بھی کہا گیا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 25 اے ریاست کو 5 سے 16 برس کی عمر کے بچوں کو مفت لازمی تعلیم دینے کا پابند بناتا ہے، آئین کے آرٹیکل 25 اے میں کسی مخصوص حکومت کو بچوں کو مفت تعلیم دینے کیلئے پابند نہیں کیا گیا، یہ صرف وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ بچوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد نصاب کا معاملہ صوبوں کے دائرہ اختیار میں شامل ہو چکا ہے۔
پنجاب سکول ایجوکیشن کا مکمل اختیار ہے کہ وہ صوبے میں نصاب کی بہتری کیلئے اقدامات کرے، صوبے اگر یکساں تعلیمی نصاب لانا چاہیں تو بہترین باہمی ہم آہنگی کیساتھ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔وفاق فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت صوبوں سے مشاورت کے بعد اپنا اختیار استعمال کر کے ملک بھر میں یکساں تعلیمی نصاب کو چلا سکتا ہے۔
درخواست گزار پبلشرز نے جن سرکاری خطوط کو بطور ثبوت پیش کیا وہ مشاورتی نوعیت کے ہیں ،حکومت نے تعلیمی نصاب میں یکسانیت لانے سے متعلق تاحال کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جس سے درخواست گزاروں کے کاروبار کو نقصان پہنچے، عدالتیں کسی خدشے کی بنیاد پر آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے حکم جاری نہیں کر سکتیں، ائین کے آرٹیکل 25 اے اور 37 بی کے تحت ریاست ملک سے ناخواندگی کم از کم عرصے میں ختم کرنے کی پابند ہے۔
ریاست آئین کے آرٹیکل 25 اے اور 37 بی کے تحت بچوں کو مفت سیکنڈری تعلیم دینے کی پابند ہے، درخواستگزار کی جانب سے موقف اختیار کیاگیا کہ۔ پنجاب بھر اول سے پنجم جماعت تک درسی نصاب شائع کررہے ہیں۔نیشنل کریکلم کونسل کی منظوری کے بعد اول سے پنجم جماعت تک کا تعلیمی نصاب شائع کر رہے ہیں، وفاقی حکومت اب جماعت اول سے پنجم تک ایک قومی کریکلم بنانے جا رہی ہے۔
وفاقی حکومت کا ملک بھر میں ایک نصاب تیار کرنے کا فیصلہ صوبائی خود مختاری کیخلاف ورزی ہے، وفاقی حکومت کے فیصلے کے بعد تمام صوبوں کو ایک ہی طرح کا نصاب شائع کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے،وفاقی حکومت کا یکساں تعلیمی نصاب کا فیصلہ نجی اشاعت خانوں کا کاروبار تباہ کر دے گا، درسی کتب کی اشاعت کا اختیار پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے زیر انتظام ہے جس پر وفاقی حکومت اپنا حکم جاری نہیں کر سکتی۔
18 ویں ترمیم کے بعد تعلیمی نصاب کا معیار مقرر کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے، سرکاری وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ درخواستگزار پبلشرز نے جن سرکاری خطوط کی بنیاد پر عدالت سے رجوع کیا ہے وہ تمام محکمے کی اندرونی خط و کتابت ہے، صوبائی و وفاقی حکومت نے ابھی تک یکساں تعلیمی نصاب سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا، نجی پبلشرز نے ابھی تک تعلیمی نصاب برائے 2021-2022ءکی اشاعت کیلئے این او سی حاصل ہی نہیں کیا، صوبائی کابینہ نے یکساں تعلیمی نصاب کا معاملہ سکول ایجوکیشن کو بھجوا کر درست فیصلہ کیا۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی کابینہ کے ستمبر کے اجلاس میں یکساں تعلیمی نصاب کے نفاذ کا معاملہ پہلے ہی موخر کیا جا چکا ہے، صوبائی کابینہ کہہ چکی ہے کہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد یکساں تعلیمی نصاب کے اثرات کا جائزہ لیا جائے، صوبائی حکومت یکساں تعلیمی نصاب کے معاملے پر درخواست گزاروں کا موقف بھی سنے، محکمہ تعلیم درخواست گزاروں کو ایک ماہ میں سن کر ان کی داد رسی بھی کرے۔