پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا جاری نہ کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل

Peshawar High Court, PTI petition, Election Commission of Pakistan, Election Sign, ECP verdict suspenced, Ali Zafar, Gohar Khan,, Babar Awan, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 عامر شہزاد :   پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کر کے اس کا انتخابی نشان جاری نہ کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا،  پی ٹی آئی کی زیر سماعت درخواست کی سماعت کے لئے ڈویژن بنچ بنانے کی ہدایت دے دی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔ اب اس کیس کی سماعت نیا ڈویژن بنچ دس جنوری کو عدالتی تعطیلات کے بعد کرے گا۔ 

پشاور ہائی کورٹ کے اس بنچ نے پی ٹی آئی کی ا درخواست پر دوسری مرتبہ الیکشن کمیشن کو حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ 

 اس فیصلہ کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ ان کی موکل پی ٹی آئی کو بلے کا نشان مل گیا ہے۔
منگل کے روز پشاور ہائی کورٹ میں  دسمبر کو دائر کی گئی پی ٹی آئی کے وکلا  علی ظفر، گوہر خان اور بابر اعوان پیش ہوئے۔ درخواست کی سماست جسٹس کامران حیات نے کی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کے دلائل سننے کے بعد عبوری حکم جاری کرتے ہوئے  انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخوستوں پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا اور الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر کے پی ٹی آئی کی پیٹیشن پر جواب طلب کر لیا۔

منگل کے روز پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی تو علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ 20 دن کے اندر انتخابات کرائیں، 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کیے گئے، الیکشن کمیشن نے مانا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بارے میں کہا کہ ٹھیک ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن نے سرٹیفکیٹ بھی دے دیا پھر الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات ہوئے لیکن جس نے کرائے وہ ٹھیک نہیں ہے، الیکشن کمشنر پر اعتراض آگیا اور ہمارے انتخابات کالعدم قرار دیے گئے، الیکشن کمیشن کا آرڈر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ایک تعیناتی کی بنیاد پر انتخابی نشان واپس نہیں لیا جاسکتا۔ علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ پارٹی آئین ہم نے بنایا ہم نے ہی عمل کرنا ہے،پارٹی آئین کے مطابق ہی انتخابات کرائے، 

 جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ اگر سیکرٹری جنرل مستعفی ہوجائے تو کیا ہوگا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عہدہ سنبھال لیتا ہے، اور اس وقت عمر ایوب ہی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل تھے۔

 جسٹس کامران حیات نے سوال کیا کہ کیا اسد عمر نے استفعی دیا اور وہ منظور بھی ہوا۔

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی بالکل لیکن الیکشن کمیشن نے یہ پوچھا ہی نہیں کیونکہ ٹرائل نہیں ہوا۔ علی ظفر نے کہا کہ یہ انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوئی گراؤنڈ نہیں ہے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ سول کورٹ جاسکتا ہے، آئین وقانون یہی کہتا ہے۔

جسٹس کامران حیات نے آبزرویشن دی، اس پر آج فیصلہ نہیں دے سکتے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، 

بعد ازاں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض کرنے والے وکیل عدالت میں پیش ہوئے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

 جسٹس کامران حیات نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار کہاں ہے، الیکشن کمیشن نے کس قانون کے تحت پارٹی سرٹیفیکیٹ مسترد کیا۔ اگر وہ انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرواتے تو اسکی سزا کیا ہو گی؟ آپ اس کیس میں آ گئے ہیں تو عدالت سن رہی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ وفاق کی جانب سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

 جسٹس کامران حیات نے کہا، ان (انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دہندہ کے وکیل) کو سن کے پھر آپ کو بھی سن لیں گے۔

ایڈینشل اٹارنی جنرل نے پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست کے متعلق کہا کہ یہ کیس سنگل بینچ کا نہیں ہے، اس کے لیے دو رکنی بینچ تشکیل دیا جائے۔ انتخابی نشان کا فیصلہ10 جنوری کو ہونا ہے، اور عدالتی چھٹیاں 8جنوریُ کو ختم ہونا ہیں، اسکے بعد کیس کو سنا جائے۔

جسٹس کامران حیات نے کہاایک پوری سیاسی جماعت کو آپ نے انتخابات سے باہر کر دیا، الیکشن کمیشن کے قانون میں لکھا ہے کہ اگر انٹرا پارٹی انتخابات کوئی پارٹی نہ کرا سکے تو اسکی کیا سزا ہے، اس ملک میں کتنی سیاسی جماعتیں ہیں، اور کتنے کیس الیکشن کمیشن کے پاس پڑے ہے سب کا فیصلہ کریں پھر۔