حماس غزہ کے لیڈر سنوار کا ہتھیار ڈالنے سے انکار، دوحا میں حماس نے مصری تجویز مسترد کر دی

Yahya Sinwar, Hamas, Israel, IDF, Ismael Haniya, Egyptian initiative,
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: غزہ میں حماس کے عملاً سربراہ یحیٰ سنوار نے 7 اکتوبر کے بعد  پہلے عوامی پیغام میں کہا ہے کہ حماس ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ دوسری جانب اسی دوران قطر میں حماس کی سینئیر قیادت نے جنگ بندی کی مصری تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ دوحا میں حماس کی جانب سے مصری تجویز کو رد کئے جانے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد اسرائیل میں جنگی کابینہ نے اپنا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
حماس کے سربراہ نے گروپ کی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ  وہ IDF کو 'کچل رہے ہیں۔ سنوار کا بیان اس وقت سامنے آیا جب قطر کے دارالحکومت دوحا میں حماس کی اعلیٰ قیادت مصر کی طرف سے حماس اسرائیل جنگ بندی کروانے کی تجویز کا جائزہ لے رہی تھی۔ بعد ازاں قطر میں حماس کی طرف سے مصر کی ےجویز کو مسترد کرنے کا رسمی اعلام سامنے آ گیا۔ 
اسرائیل کے اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل پر حماس کے  7  اکتوبر کے حملوں کے بعد  پیر کے روز اپنے پہلے عوامی پیغام میں غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار ڈٹے رہے، جب کہ انہوں نے جنگ میں اپنی کامیابیوں کو بڑے پیمانے پر بڑھا چڑھا کر بتایا۔  سنوار نے حماس کی سیاسی قیادت کے نام ایک پیغام میں اعتراف کیا کہ حماس کو اسرائیل کے خلاف ایک "سخت، پرتشدد اور بے مثال جنگ" کا سامنا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حماس اسرائیل کی دفاعی افواج کو کچلنے کے راستے پر گامزن ہے۔ سنوار نے اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حماس "قبضے کی شرائط" کو تسلیم نہیں کرے گی۔

سنوار نے دعویٰ کیا کہ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے 5,000 سے زیادہ اسرائیلی فوجیوں اور افسروں کو "نشانہ بنایا" اور ان میں سے تقریباً ایک تہائی یعنی 1,500 کو مار ڈالا۔
اسرائیل کے حکام  کہ سنوار کا  آئی ڈی ایف کی ہلاکتوں کے متعلق دعویٰ اصل تعداد سے دس گنا زیادہ ہے۔  آئی ڈی ایف کا نقصان سنوار کے الزام کا دسواں حصہ ہے۔ آئی ڈی ایف کے مطابق غزہ میں زمینی کارروائی میں اب تک 156 فوجی مارے جا چکے ہیں۔ 7 اکتوبر کو حماس کے ابتدائی حملے میں سکیورٹی فورسز کے 300 سے زائد ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔

یحیٰیٰ سنوار نے جنگ میں زخمی ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد اور تباہ ہونے والے اسرائیلی فوجی سازوسامان کے بارے میں بھی بڑے دعوے کیے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 3500 فوجی شدید زخمی یا معذور ہو گئے ہیں جبکہ IDF کے مطابق یہ تعداد 200 سے بھی کم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حماس نے اسرائیل کی 750 فوجی گاڑیوں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اگرچہ IDF نے سرکاری اعداد و شمار فراہم نہیں کیے ہیں، IDF ٹیکنالوجی اور مینٹیننس کور کے کمانڈر، بریگیڈیئر  جنرل ایریل شیما نے نومبر کے اوائل میں کہا تھا کہ آئی ڈی ایف کی بہت کم گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جو کہ مرمت کے قابل نہیں رہیں،  زیادہ تر گاڑیاں جو  ڈیمیج ہوتی ہیْں وہ مرمت کے بعد  لڑائی میں واپس آ جاتی ہیں۔سنوار کا یہ اعلان ایسے وقت میں آیا جب حماس کو بڑھتے ہوئے فوجی دباؤ کا سامنا ہے۔

اسی دوران قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب میڈیا کی جانب سے یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ  حماس اور اسلامی جہاد نے جنگ بندی کیلئے غزہ سے دستبردار ہون کر اسے فلسطینیوں کی عبوری حکومت کے حوا؛ے کرنے کی مصر  کی تجویز مسترد کردی۔

خبر ایجنسی کے مطابق حماس اور اسلامی جہاد کے وفود کی قاہرہ میں مصری حکام سے ملاقات ہوئی ہے جس میں مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔تاہم دونوں تنظیموں نے غزہ کا کنٹرول چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔ 

حماس کے حکام نے کہا ہے کہ حماس فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ چاہتی ہے اور فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کیلئے مصری بھائیوں سے بات کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت رکنے اور غزہ میں امداد میں اضافے کے بعد ہی یرغمالیوں کی رہائی پربات ہوگی۔

اسلامی جہاد نے بھی یہی مؤقف اپنایا ہے اور کہا ہے کہ تمام یرغمالیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل کو تمام فلسطینیوں قیدیوں کو رہاکرناہوگا۔

دوسری جانب اسرائیلی افواج کی غزہ پر وحشیانہ بمباری مسلسل جاری ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی حملوں میں مزید 250 فلسطینی شہید ہوگئے۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی بمباری سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 20 ہزار 674 ہوگئی جبکہ 54 ہزار 536 فلسطینی زخمی ہیں۔

مصر کی جنگ بندی تجویز کیا ہے؟
ہفتے کے روز، حماس کے  سربراہ اسماعیل ہنیہ دیگر جلاوطن عہدیداروں کے ساتھ قاہرہ سے واپس قطر پہنچے تاکہ مصر کی جانب سے دو ہفتے کی جنگ بندی کی تجویز پر بات کی جا سکے جس کی ایک شرط یہ ہے کہ  اگر حماس فلسطینی ٹیکنوکریٹک حکومت کو غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت دینے پر راضی ہو جائے تو یہ دو ہفتوں کی جنگ بندی مستقل جنگ بندی بن سکتی ہے۔ اس تجویز میں غزہ، اور فلسطینی قیدیوں کی ایک مخصوص تعداد کی رہائی کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو بتدریج رہا کرنا بھی شامل ہے۔

یہ تجویز مکمل طور پر مصر کی طرف سے آئی ہے تاہم کچھ اشارے ایسے مل رہےتھے کہ اسرائیل نے اس تجویز کو یکسر مسترد نہیں کیا تھا۔ مصر کی اس تجویز کے مطابق تین مرحلوں پر مشتمل اس منصوبے کا آغاز لڑائی کی دو ہفتے کے لئے بندش کے ساتھ ہوگا، جس میں تین یا چار تک ہفتے توسیع کی جاسکتی ہے، اس جنگ بندی کے بدلے میں 40 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی  عمل میں آئے گی جن میں خواتین، نابالغ اور بوڑھے مرد، خاص طور پر بیمار شامل ہیں۔

بدلے میں اسرائیل اسی زمرے کے 120 فلسطینی سکیورٹی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اس دوران جنگ رک جائے گی، اسرائیلی ٹینک واپس چلے جائیں گے، اور انسانی ہمدردی کی امداد غزہ میں داخل ہو جائے گی۔

دوسرے مرحلے میں مصر کی سرپرستی میں "فلسطینی قومی مذاکرات" کروائے جائیں گےجس کا مقصد فلسطینی دھڑوں - خاص طور پر فتح پارٹی کے زیر تسلط فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان تقسیم کو ختم کرنا ہے  اور  یہ مذاکرات مغربی کنارے اور غزہ میں ایک ٹیکنوکریٹک حکومت کی تشکیل کا باعث بنیں گے۔ ٹیکنوکریٹک حکومت غزہ  پٹی کی تعمیر نو کی نگرانی کرے گی اور فلسطینی پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے لیے راہ ہموار کرے گی۔

مصری تجویز کے تیسرے مرحلے میں ایک جامع جنگ بندی، 7 اکتوبر حملوں کے بعد گرفتار ہونے والے حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد گروپ سے وابستہ افراد جو اس وقت اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں اور پہلے سے سرائیں کاٹ رہے فلسطینی سیکورٹی قیدیوں کی ایک مقررہ تعداد کے بدلے میں فوجیوں سمیت تمام بقیہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی،  شامل ہے۔