(قیصر کھوکھر) پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے چارج سنبھال کر کام شروع کر دیا ہے اور ابھی تک ساری مشاورت کی حد تک ہی باتیں ہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی نے بھی اپنے اپنے طور پر رابطے تیز کر لئے ہیں اور اپنی اپنی تقرریاں لینے کی کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی بڑی طاقتور ہو چکی ہے اور اس میں سیاسی اثرات تہ تک سرایت کر چکے ہیں اس بیوروکریسی کو ٹھیک کرنے میں وقت تو لگے گا۔ لیکن دوسری آراءیہ بھی ہے کہ یہی بیورو کریسی سابق حکومت کے کہنے پر ہر غلط کام بھی کرتی رہی ہے اب یہ پی ٹی آئی کی حکومت کے کہنے پر ہر وہ کام کرنے پر تیار ہے جو اسے سونپا جائے گا۔
موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو انتظامی امور کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے یہ صرف تحصیل ناظم ہی رہے ہیں ۔ صوبائی حکومت میں انہیں کام کرنے کا تجربہ نہیں ہے نہ وہ وزیر رہے ہیں اور نہ ہی مشیر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی بلدیاتی نظام سے آگے آئے تھے اور وہ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے صوبائی وزیر اور سپیکر پنجاب اسمبلی رہ چکے تھے۔ انہوں نے ایک بیوروکریسی کی اچھی ٹیم بنائی تھی جس میں جی ایم سکندر، سلمان صدیق، سلمان غنی سمیت متعدد شاندار کیریئر کے افسران شامل تھے۔
یہی وجہ ہے کہ پانچ سال انہوں نے بہتر طور پر چلائے لیکن ان کے مقابلے میں موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت ، سیاسی پارٹی اور موجودہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کو حکومت چلانے کا تجربہ نہیں اور یہ بیوروکریسی پہلے چھ ماہ تک تو انہیں معاملات کی سمجھ ہی نہیں آنے دے گی۔ بیوروکریسی پنجاب کی موجودہ حکومت سے زیادہ تجربہ کار اور ہوشیار ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو ٹیم ورک پر کام کرنا ہوگا اور افسر شاہی کی ایک اچھی ٹیم بنانا ہوگی جسے وہ لے کر آگے چلیں ایک مضبوط چیف سیکرٹری اور ایک مضبوط آئی جی پولیس وقت کی ضرورت ہے تاکہ افسر شاہی ان کے سامنے بول نہ سکے اور وہ تقرر و تبادلوں سمیت ہر فیصلہ کر سکیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی میں دیگر صوبوں کی نسبت گردن میں زیادہ سریا پایا جاتا ہے جسے نکالنا پی ٹی آئی کی حکومت کا کام ہے تاکہ اسے ایک عوام دوست بیوروکریسی بنایا جا سکے۔ تھانہ اور تحصیل سے لے کر پنجاب سول سیکرٹریٹ تک تمام دروازے کھلے ہوئے ہوں۔
تحصیل اور ٹائون سے لے کر لاہور شہر آنے والا کوئی بھی سائل کسی بھی افسر کو بغیر کسی رکاوٹ کے مل سکے تاکہ کسی بھی محکمے یا ادارہ کا جب افسر متعلقہ سائل کو از خود مل لے گا تو اسی فی صد مسائل یہیں پر حل ہو جائیں گے اور لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کےلئے عدالتوں کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔ میاں شہباز شریف نے انگلی پر اس بیورو کریسی کو چلایا اور وہ جسے چاہتے جب چاہتے ٹرانسفرکر دیتے تھے لیکن موجودہ وزیر اعلیٰ شریف اور سیدھاسادھا آدمی ہے
جسے یہ بیوروکریسی آگے لگا لے گی اور اپنے جال میں پھنسالے گی۔ قانون اور ضابطہ پر عمل کرنا تو ایک سیکرٹری، کمشنر اور ڈی سی اور اے سی کے پاس ہوتا ہے سیکرٹریوں کی ایک اچھی ٹیم بہت ضروری ہے اور موجودہ بیوروکریسی میں اصلاحات اور انہیں ٹرانسفر کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ کئی سیکرٹری نگران دور میں تقرری تو حاصل کر چکے ہیں لیکن وہ سیکرٹری، کمشنر، یا ڈی سی لگنے کے اہل نہیں لیکن وہ کام چلا رہے ہیں جسے ڈنگ ٹپاﺅ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جب سیکرٹری ، چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس، کمشنرز، ڈی سی اور ڈی پی او میرٹ پر لگیں گے تو وزیر اعلیٰ کی کمی پوری ہوجائےگی اور ایک مضبوط چیف سیکرٹری پنجاب اور مضبوط آئی جی پولیس فوری طور پر ہونا چاہئے۔
کے پی کے میں ناصر خان درانی کا ماڈل ایک اچھا ماڈل ہے جس کی وجہ سے کے پی کے کی پولیس مضبوط ہوئی اور آج چاروں صوبے کے پی کے پولیس کے رول ماڈل کو اپنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ماضی میں کئی حکمران آئے اور اپنے اپنے انداز میں بیوروکریسی کو چلاتے رہے ہیں ، نواب آف کالا باغ ، بھٹو دور، ضیاءدور، نواز شریف اور شہباز شریف دور آیا سبھی نے بیورو کریسی کو اپنے اپنے انداز میں چلایا لیکن ملک اور لانگ ٹرم پالیسیوں کے بارے میں کسی نے بھی نہ سوچا، سب نے ڈنگ ٹپاﺅ حکومت کی اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی بیوروکریسی میں اصلاحات کی باتیں ہو رہی ہیں۔
اداروں کو مضبوط اور غیر سیاسی کیا جائے اور تمام قسم کے تقرر و تبادلے کا اختیار محکمے کے سربراہ اور چیف سیکرٹری اور آئی جی کو دیا جائے اور ان کی صرف ڈلیوری اور آوٹ پٹ لیا جائے۔ پولیس میں آئی جی پولیس اور آر پی او اور ڈی پی او اگر امام مسجد بھی تعینات کر دیئے جائیں تو معاملات اس وقت تک ٹھیک نہیں ہونگے جب تک بیٹ افسر، ایس ایچ او اور ڈی ایس پی رینک کو ٹھیک نہ کیا جائے کیونکہ ان تینوں درجات سے ہی ایک عام آدمی کا کام اور پالا پڑتا ہے انہیں فوری طور پر ٹھیک کرنا ضروری ہے، ان سارے معاملات میں وزیراعلیٰ پنجاب کو الرٹ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بیوروکریسی سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بھی کئی معاملات میں بیوقوف بناتی رہی ہے جیسا کہ چنیوٹ میں سونے کی دریافت کا ایشو تھا۔ اس وقت کے سیکرٹری معدنیات ڈاکٹر ارشد محمود وزیر اعلیٰ کو من گھڑت بریفنگ دیتے رہے کیونکہ شہباز شریف بریفنگ کو پسند کرتے ہیں۔
یہ بیوروکریسی وزیر اعلیٰ کے مائند سیٹ کی ریڈنگ کرتی ہے اور اسی انداز میں چلتی ہے۔ احد خان چیمہ، راشد لنگڑیال وزیر اعلیٰ کو من گھڑت بریفنگ کے ذریعے چکمہ دیتے رہے ہیں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اجلاسوں میں ڈی ایم جی افسران کی اکثریت ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کا دفاع اور پاسداری کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کرتے ہیں ہر ہونےوالے اجلاس میں کیونکہ ان کی اکثریت ہوتی ہے اس لئے وزیر اعلیٰ کو ان کی بات کو اہمیت دینا پڑتی ہے۔ اور بات ماننا پڑتی ہے۔ موجودہ وزیراعلیٰ کو پنجاب کی بیوروکریسی سے الرٹ ہونا پڑے گا اور پارٹی مشاورت اور پارٹی ٹیم کو لے کر چلنا ہوگا اور ایک چیف سیکرٹری آفس اور آئی جی آفس کو مضبوط بنانا ہوگا کیونکہ انہیں تو حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں اور بیوروکریسی ان کے راستے میں ان سے غلط فیصلے کروا کر کئی طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے۔ ایک مضبوط چیف سیکرٹری اور مضبوط آئی جی پولیس وزیراعلیٰ کے انتظامی امور کے تجربہ کی کمی کو پورا کریں گے۔