آئین کے مطابق ہر رکن اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا: چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال
کیپشن: Chief Justice Umer Ata Bandial
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

24نیوز: چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دئیے ہیں  کہ آئین کے مطابق ہر رکن اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا۔ رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہ کرنا اس کی تضحیک ہوگی۔البتہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے کے نتائج ضرور ہوں گے۔جتنا مرضی غصہ ہو پارٹی کیساتھ ہی کھڑے رہنا چاہیے. مغرب میں بھی لوگ پارٹی کے اندر ہی غصے کا اظہار کرتے ہیں.

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن ، جے یو آئی اور سپریم کورٹ بار نے صدارتی ریفرنس کے تحریری جوابات جمع کرائے۔

  اٹارنی جنرل خالدجاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہا   آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں ایک خاندان کی حیثیت حاصل ہے۔ جسٹس اعجازالحسن نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 ایک ساتھ ہیں آپ کی یہ دلیل ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 19 ہر شخص کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔

 جس پر جسٹس اعجازالحسن نے کہا آپ دراصل رکن قومی اسمبلی اور عام شہری کے ووٹ کے حق میں فرق کی بات کر رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا 
رکن کا ڈالا گیا ووٹ واپس نہیں ہو سکتا۔ آرٹیکل 17(2) انفرادی ووٹ کی بجائے سیاسی جماعت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔پارلیمانی نظام حکومت میں انفرادی سیاسی جماعت کی کوئی قانون سازی میں اہمیت نہیں ہوتی۔  اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ پارٹی رجسٹریشن کیس سپریم کورٹ نے اصول طے کیا ہوا ہے کہ انفرادی ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں۔ 

 جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے ووٹ کا حق رکن اسمبلی کو ملتا ہے نہ کہ سیاسی جماعت کو۔ جسٹس منیب اختر نے کہا سیاسی جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ درحقیقت سیاسی جماعت کو کمزور کرتی ہے۔‏سیاسی جماعتیں ادارے ہیں۔‏ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں۔‏پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔

اٹارنی جنرل نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا  1985 میں غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن ہوئے تھے۔محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بننے کیلئے پارٹی صدر بننا پڑا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے آپ کے مطابق پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور آئینی محرکات الگ ہیں۔ سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا.

 جسٹس جمال خان مندوخیل نے اہم نقطے اٹھاتے ہوئے کہا کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں؟پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا  پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے۔ مستعفی ہوکر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ٹکٹ لیتے وقت امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔سپریم کورٹ کے پاس آئین میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ آئین کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ کے پاس محدود اختیار ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے۔زیادہ تر جمہوری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں۔کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جاسکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس  نے  کہا کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟جسٹس اعجازالحسن  نے کہا  موجودہ حکومت کی بہت کم اکثریت ہے۔ 

 جسٹس منیب اختر نے اہم قانونی نقطہ اٹھایا کہ آرٹیکل 63( اے) اچھے برے کی تمیز کیے بغیر پارٹی حکم پر عمل کرنے کی بات کرتا ہے۔اصل مسئلہ ہی یہی ہے۔اراکین کے ادھر اُدھر جانے سے تباہی پھیلے گی۔

اٹارنی جنرل نےدلائل دئیے کہ آرٹیکل 62 اور 63 اے کو اکٹھا پڑھا جائے ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کیا کوئی رکن یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا ووٹ پالیسی کے خلاف ہے لیکن اس سے کوئی متاثر نہ ہو ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ کیا آپ کی دلیل بھی فلور کراسنگ میں ہے ۔کیا آپ پارٹی سربراہ کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں۔ 

 اٹارنی جنرل نے کہا ہم پارٹی سربراہ کو بادشاہ نہیں بنانا چاہتے۔ ہم پارٹی سربراہ کو لوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں۔ سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن  نے کہا  اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چئیر ہی چلتی رہے گی۔

 اٹارنی جنرل  نے کہا  معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔ جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دئیے کہ سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی۔انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔ 

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دئیے کہ آئین کے مطابق ہر رکن اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا، رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہ کرنا اس کی تضحیک ہوگی۔پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے کے نتائج ضرور ہوں گے۔ صدارتی ریفرنس میں یہ سارے معاملات عدالت کیوں دیکھے۔ صدارتی ریفرنس سے پہلے پارلیمنٹ میں یہ سارے معاملات کیوں نہیں حل کیے گئے۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دئیے کہ آئین میں پارٹی سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کو بااختیار بنایا ہے۔پارٹی کی مجموعی رائے انفرادی رائے سے بالاتر ہوتی ہے۔ سیاسی نظام کے استحکام کے لیے اجتماعی رائے ضروری ہوتی ہے۔  پارٹی پالیسی سے انحراف روکنے کے لیے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا۔  جس پر  اٹارنی جنرل  نے کہا  پارٹی پالیسی سے انحراف پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے۔ جسٹس منیب اختر  نے کہا  ایک تشریح تو یہ ہے انحراف کرنے والے کا ووٹ شمار نہ ہو۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے سوال اٹھایا کہ کیا ڈی سیٹ ہونے تک ووٹ شمار ہو سکتا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں ووٹ شمار نہ کرنے کا کہیں ذکر نہیں۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دئیے کہ کسی کو ووٹ ڈالنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔ اٹارنی جنرل  نے دلائل دئیے کہ یہ ضمیر کی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دئیے کہ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نے عدم اعتماد کیا اور حکومت بدل گئی۔  جس پر اٹارنی جنرل نے کہا بلوچستان میں دونوں گُروپ باپ پارٹی کے دعویدار تھے۔ سب سے زیادہ باضمیرتو مستعفی ہونے والا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا توہین آمیز ہے۔ ارٹیکل 63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے۔اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔

چیف جسٹس نے رضا ربانی  کو عدالتی معاون بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ سیاسی جماعت کے رہنما ہیں عدالتی معاون نہیں بن سکتے لیکن آپ کا مؤقف ضرور سنیں گے۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا  کل اٹارنی جنرل اگر دلائل مکمل کر لیں تو مناسب ہوگا۔

 اٹارنی جنرل نے کہا پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے۔عدالت سے استدعا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے صدارتی ریفرنس پر رائے دی جائے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ یہ اہم معاملہ ہے چند دن سماعت پر لگیں گے۔عدالتی کارروائی کو اسمبلی اجلاس سے منسلک نہ کریں۔کیا اس ریفرنس پر فیصلے کی جلدی ہے؟ بعدازاں کیس کی سماعت کل دوپہر ڈیڑھ بجے تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کل نماز جمعہ کے بعد ایک گھنٹہ سماعت کریں گے۔

Muhammad Zeeshan

Senior Copy Editor