پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں میں سرد جنگ کا آغاز ہوگیا

دو بڑی جماعتوں میں سرد جنگ
کیپشن: پی ڈی ایم
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42: کل کے اتحادی حریف بننے کی طرف تیزی سے گامزن، ایک دوسرے کے حق میں نعرے لگانے والوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولی باری شروع ہوگئی۔

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے بلاول کے بیان پر اپنے تحفظات سے مولانا فضل الرحمان کو آگاہ کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان تحفظات دور کرنے کے لیے درمیانی راستے کی تلاش میں نکل پڑے۔ اس سلسے میں مولانا فضل الرحمان نے زرداری اور نواز شریف سے رابطے کیے ہیں۔ مولونا نے دونوں جماعتوں کو بیان بازی سے روکنے کی اپیل کر دی۔

مریم نواز کے ایک اور سلیکٹڈتیار ہونے کے ٹویٹ کے جواب میں بلاول بھٹو کا رد عمل آیا۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز کے بیانات پر پی ڈی ایم میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ پی ڈی ایم قائدین کے پی ڈی ایم کے مستقبل کے حوالے سے تشویش کی لہر دوڑ پڑی ہے۔ پی ڈی ایم کے قائدین نے دونوں بڑی جماعتوں میں تصفیہ کے لئے اہم رہنماؤں پر مشتعمل کمیٹی بنانے کی تجویز دے دی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کو گراتے گراتے خود اختلافات کا شکار ہوگئی ہے۔ پی ڈی ایم قائدین نے مولانا سے شکوے کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے کمزور ہونے سے حکومت مضبوط ہوگئی ہے۔ پی ڈی ایم کے آپس میں اختلافات ختم نہ ہوئے تو ساری جدوجہد رائیگاں چلی جائے گی۔ قائدین نے مولانا فضل الرحمان کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن سے پہلے معاملات کو سلجھایا جائے۔

دوسری جانب قمر زمان کائرہ نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے لئے یوسف رضا گیلانی کو موزوں قرار دے دیا ہے۔ قائد حزب اختلاف سینیٹ اتنا بڑا عہدہ نہیں کہ پیپلزپارٹی مری جا رہی ہے۔ ہماری رائے میں یوسف رضا گیلانی کے فیصلے تک انہیں قائد حزب اختلاف سینیٹ بنا دینا چاہئے۔

سیکرٹری اطلاعات پیپلزپارٹی فیصل کریم کنڈی نے خواہش ظاہر کی کہ چاہتے ہیں، پی ڈی ایم کے اتحاد میں دراڑ نہ آئے، پیپلزپارٹی مرکز اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی نیب پیشی میں شرکت کے لئے اگر پی ڈی ایم بلاول بھٹو سے کہے گی تو پارٹی فیصلہ کرے گی۔