(قیصر کھوکھر) حکومت اس وقت سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کا از سر نوءتعین کر رہی ہے اور وفاقی حکومت نے چاروں صوبائی حکومتوں سے اس حوالے سے رائے مانگ لی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال سے بڑھا کر 63سال کر دی جائے اور اس سلسلہ میں حکومت خیبر پختونخواہ نے کابینہ کو منظوری کےلئے سمری بھی ارسال کر دی گئی ہے ۔سمری میںتجویز کیا گیا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کی عمر 63سال کی جائے،یہ حکومت کوئی خیراتی ادارہ نہیں کہ بوڑھے افراد کا بوجھ برداشت کرے ۔یہ ریٹائر ہوں اور گھر جائیں۔ حکومت پر ایک معاشی دباو ہوتا ہے کہ نوجوانوں کوملازمتیں دی جائیں اور اگر ریٹائرمنٹ کی عمر 63سال کرنے سے جی پی فنڈ کی بچت ہوتی ہے تو اس کے مقابے میں جو بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے وہ کہیں زیادہ ہے۔
حکومت کو ریٹائرمنٹ کی عمر 58سال کرنے سے نوجوانوں کی ایک نئی فوج ملے گی جو ورکر بن کر کام کرے گی اور ادارے ترقی کریں گے، کیونکہ 62 سال کے بوڑھے آدمی نے کیا ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے، وہ تو صرف اور صرف اپنی ہی غربت مٹانے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی عمر کے بارے میں سوچ بچار کر رہا ہوگا۔ جس ملازم نے ساٹھ سال کی عمر تک قوم اور عوام کےلئے کچھ نہیں کیا اور اب تین سال ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے سے وہ کیا کر لے گا۔ ہمارا ملک کاایک بہترین ادارہ فوج ہے، جہاں پر جوانی میں ہی افسران اور جوان ریٹائر ہو جاتے ہیں۔
جو بہترین کارکردگی دکھاتا ہے وہ مزید ترقی پاتاہے لیکن سول سروس میں معاملہ اس کے الٹ ہے۔ جو افسر بھی گریڈ 17میں بھرتی ہوتا ہے وہ گریڈ 21تک ترقی پاتا جاتا ہے اور یہ ترقی بلا کسی رکاوٹ کے ہوتی ہے۔ فوج کی طرح سول سروس اور دیگر اداروں میں بھی ترقی کا معیار تبدیل ہونا چاہئے اور اگلے گریڈ میں ترقی سنیارٹی کی بجائے کارکردگی اورفٹنس کی بنیاد پر ہونی چاہئے تاکہ وہ بہترین کارکردگی نہیں دکھاتا ہے تواُسے گریڈ19اور گریڈ20میں ہی ریٹائر کر دینا چاہئے۔ لیکن اب تو افسر شاہی کی ہوس بڑھتی جا رہی ہے ، اب ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال کی بجائے 63سال کی جا رہی ہے اور اس سلسلہ میں پنجاب حکومت نے بھی ورکنگ شروع کر دی ہے ۔ اس سے سب سے بڑا نقصان نوجوانوں کا ہوگا ۔
جو ملازمت کی تلاش میں پہلے ہی پریشان ہیں۔ اس سے بیروزگاری کاایک نیا طوفان اُمڈ آئے گا اور گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے۔ اس وقت ہمارے ملک میں بے روزگار نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، جو پہلے ہی ملازمتوں کے حصول کے سلسلہ میں سرکاری دفاتر کے چکر لگاتی رہتی ہے اور روزانہ اخبارات کے اشتہارات پڑھتی رہتی ہے اور اب جبکہ مزید تین سال تک کوئی ریٹائر نہیں ہو گا تو کو نیا ایڈ بھی اخبارات میں نہیں آئے گا ؟اور ان بے روز گار نوجوانوں کا کیا بنے گا،ان کے دل پر کیا بیتے گی اور وہ کہاں جائیں گے؟۔لہذا حکومت وقت کو ریٹائر منٹ کی عمر بڑھانے کی بجائے کم کرنی چاہئے۔
ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال سے کم کر کے 58سال کر دی جائے تاکہ نوجوانوں کو سرکاری اداروں اور محکموں میں نوکریاں دی جا سکیں۔ حکومت کو سست اور نااہل ملازمین کو فارغ کرنا چاہئے اور ان کی جگہ” ینگ بلڈ “کو شامل کیا جائے اور ایسے تمام افسران اور ملازمین، جو محکمہ جات کے لئے بوجھ ہیں یا جو کام میں دلچسپی نہیں لیتے ،انہیں بھی محکموں اور اداروں سے قبل از وقت ریٹائر کر دیا جائے اور ان کی جگہ پر میرٹ پر نئی بھرتی کی جائے اور یہ فارمولا کی سنیارٹی کی بنیاد پر ہر پانچ سال بعد اگلا گریڈ ملے گا ،یہ تبدیل کرنا ہوگا۔ ہر پانچ سال بعد بورڈ بنا کر فیصلہ کیا جائے کہ کس نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے، تو اسے اگلے گریڈ میں ترقی دی جائے دیگر کو ڈیفر کر دیا جائے تاکہ اداروں اور وزارتوں اور محکموں میں کام کرنے کی ھوصلہ افذائی کی جاسکے اور ایسے تمام ملازمین کو تنبیہ ہوسکے کہ کام کرنے اور محنت کو اپنا شعار بنانے والا ہی آگے بڑھے گا۔
پنجاب حکومت ہر سال ایک اندازے کے مطابق 25 ہزار ملازمین ریٹائر ہوتے ہیں لیکن حکومت ان کی جگہ بہت کم تعداد میں نئی بھرتی کرتی ہے۔ اور اس طرح کئی محکموں میں ملازمین کی آسامیا خالی رہ جاتی ہیں، بزرگوں کے ذمہ داری اُٹھانے کی ذمہ دار حکومت کی نہیں بلکہ فیملی کی ہوتی ہے اور کئی بار عدالتیں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر نوکریوں کی حوصلہ شکنی کرچکی ہیں اور حکم جاری کرچکی ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی افسر یا ملازم کو کنٹریکٹ نہ دیا جائے اور ان کی جگہ نوکریاں دی جائیں تاکہ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔
حکومت وقت کو فوری طور پر ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال سے کم کرکے 58 سال کرنا ہوگی تاکہ سرکاری اداروں وزارتوں اور محکموں میں ایک نئی جدت لائی جاسکے اور ہر سال لاکھوں افراد کو روزگار دیا جاسکے اور معاشرہ ترقی کرسکے اور ملک میں اگر نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر روزگار ملے گا تو امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوسکے گی اور کلاشنکوف کلچر کی بجائے نوجوان کے ہاتھ میں قلم ہوگا بہت سے نوجوان نوکری نہ ملنے پر نشے کی لت میں پڑ جاتے ہیں، یاخود کشی کرلیتے ہیں، حکومت کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی عمر 58 سال کرنے سے ان نوجوانوں کی زندگیاں بھی محفوظ ہوجائیں گی۔