عدالت نے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بحال کردیا

Lahore High Court one hour time to give undertaking to Parvez Elahi
کیپشن: Pervaiz Elahi, File Photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویزالٰہی نے عہدے پر بحال کیے جانے پرلاہور ہائیکورٹ کو اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کرادی  جس کے بعد عدالت نے گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ کو بحال کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق گورنر کی جانب وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت دوسرے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو  پرویزالٰہی نے بحال کیے جانے پر اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کرائی۔پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے ان کی انڈر ٹیکنگ پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اگر وزارت اعلیٰ پر بحال کیا تو اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس نہیں دوں گا۔

گورنر کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ایک معاملہ دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ اعتماد کا ووٹ لے لیں ہم اپنا نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں، یہ اگلے پیر کو اعتماد کا ووٹ لے لیں یا  یہ سات دن تک اعتماد کا ووٹ لے لیں۔اس پر عدالت نے حکم دیا کہ آپ خود بھی اعتماد کا ووٹ لے لیں۔عدالت نے گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ کو بحال کر دیا۔

ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کی اسمبلی نہ توڑنےکی انڈر ٹیکنگ پرانہیں بحال کیا اور تمام فریقین کو 11 جنوری کیلئے نوٹس جاری کر دیے۔

اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ میں  چوہدری پرویز الٰہی کو عہدے سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر دوبارہ سماعت شروع ہوگئی۔جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی  لارجر بینچ چوہدری پرویزالہی کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔مونس الہی اور حسین الہی بھی ہائیکورٹ پہنچ گئے۔

 دوران سماعت جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال کیا کہ اگر ہم ابھی وزیر اعلیٰ کوبحال کردیں توکیاآپ اسمبلی توڑدیں گے؟ یہ معاملہ تومنظوروٹو کیس میں بھی آیاتھا، اس کا مقصد ہےکہ ہم فوری طور پر ریلیف نہ دیں۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر دونوں فریقین اس پر یقین دہانی کراتے تو ہم کیسے ریلیف دے سکتے ہیں، اس بات کی یقین دہانی ہونی چاہیے کہ ہمارے  فیصلے کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ کیا آپ انڈر ٹیکنگ دے سکتے کہ اسمبلی نہیں ٹوٹے گی؟ اس پر علی ظفر کا کہنا تھاکہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد اسمبلی نہیں ٹوٹ سکتی۔

پرویز الہیٰ کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز الہی الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعلی بنے، انہیں 371 میں سے 186 ووٹ ملے، ان کے دس ووٹ نکال دییے گئے لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ پرویز الہی کے حق میں دیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعلی کے انتخاب میں چوہدری پرویز الہی 186 ووٹ لے کر وزیر اعلی منتخب ہوئے، اس وقت کے ڈیپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے 10 ووٹ نکال دئیے، ڈپٹی سپیکر نے ق لیگ کے دس ووٹ کاؤنٹ نہیں کیے، ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ق لیگ کے ممبران کے ووٹ تصور نہیں کیے، معاملہ سپریم کورٹ گیا جہاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کلعدم قرار دیا۔

علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ گورنر کے پاس اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کےلیے ٹھوس وجوہات ہونی چاہیے، وزیراعلی کو اسمبلی منتخب کر تی ہے اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے، اگر اکثریت  تھوڑی ہو تو ایسا ہو سکتا ہے کہ ق لیگ کے دس ارکان کہیں کہ وہ اب وزیر اعلی کے ساتھ نہیں ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر تحریک انصاف کہے کہ وہ اب وزیر اعلی کے ساتھ نہیں ہیں تو یہ کہا جا سکتا کہ اکثریت نہیں رہی، ایسے نہیں ہو سکتا کہ گورنر ایک دن اچانک کہیں کہ دو گھنٹے میں اعتماد کا ووٹ لو۔

بیرسٹر علی ظفر  نے کہا کہ اس کیس سے متعلقہ منظور وٹو کیس کا فیصلہ اہم ہے، اجلاس کال کرنے کا اختیار صرف اسپیکر کے پاس ہے، اسپیکر کو تمام ممبران کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے، اسپیکر نوٹس ہونے کے بعد فوری اجلاس کال کر بھی سکتا ہے، اسپیکر ڈیٹ فکس کر کے اجلاس کا نوٹس اس تاریخ کو بھی کر سکتا ہے، رولز کے تحت مناسب وقت دیا جانا ضروری ہے، تمام ارکان کو نوٹس دیا جانا ضروری ہے، کئی بار ارکان بیرون ملک بیٹھے ہوتے ہیں تو سپیکر دس بار دن کا وقت بھی دے سکتا ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سپیکر فورا ووٹنگ کرا دے، بظاہر اسطرح تو دس دن وقت دیا جانا بھی ضروری نہیں ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے جو سکیشن پڑھا ہے دوبارہ پڑھ دیں، سیکشن سات بھی ہڑھیں۔

 بریسٹر علی ظفر نے مختلف قانون کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کے پاس ایک پاور ہے آرٹیکل 137 کے تحت کہ وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہیں، قانون میں کہیں نہیں ہے کہ گورنر وزیراعلی کو عہدے سے ڈی نوٹیفائی کر دے، اسپیکر صرف سیشن کال کرسکتا ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ یہاں بار بار سیکرٹری کا لفظ آ رہا ہے، سہپکر کہاں سے آگیا۔ جس پر وکیل بریسٹر علی ظفر نے کہا کہ ساری پاورز سپیکرز کی ہی ہیں وہی اجلاس طلب کرسکتا ہے، یہ سارا پراسیس گورنر اور سپیکر کے مابین ہوتا ہے، تاریخ مقرر کرنا سپیکر کا اختیار ہے، گورنر نے جیسے کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، وزیر اعلی اسمبلی کا سیشن بلانے کا اختیار ہی نہیں رکھتا۔

 عدالت نے استفسار کیا سیکرٹری  اسمبلی کے اختیارات کدھر ہیں۔ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعلی خود سے اسمبلی اجلاس نہیں بلاسکتا، سپیکر کا اختیار ہے اجلاس بلانا اور اعتماد کے ووٹ یا عدم اعتماد کا پراسس مکمل کرنا، گورنر وزیر اعلی سے اعتماد ووٹ لینے کا سمن جاری کرتا ہے، وزیراعلی نے ہوا میں ووٹ نہیں لینا، اسپیکر اعتماد کے لیے اجلاس بلائے گا تو وہ آئیں۔

عدالت میں معزز جج نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد تو واپس ہو چکی ہے، اگرآپ اسمبلی توڑدیں گےتوپھریہ پٹیشن غیر موثر ہوجائےگی اورنیا کرائسس پیداہوگا۔عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر  سے کہا کہ ہم دس منٹ کا وقت دے رہے ہیں آپ اپنے موکل سے ہدایات لے لیں۔

بعدازاں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ابھی انڈر ٹیکنگ دینے کیلئے وقت درکار ہے، عدالت وزیر اعلیٰ کو بحال کرکے خود اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ اس پر جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو عدالت عبوری ریلیف نہیں دے سکے گی، ہم وزیراعلیٰ کے اسمبلی تحلیل کے آئینی اختیار پر کیسے روک لگا سکتے ہیں۔عدالت نے ایک بار پھر سماعت میں وقفہ کردیا اور کہا کہ ہم آپ کو ہدایات لینے کیلئے مزید ایک گھنٹے کا وقت دے دیتے ہیں۔ 

Abdullah Nadeem

کنٹینٹ رائٹر