داعش کے تربیت یافتہ خاندان واپس آنا شروع

داعش کے تربیت یافتہ خاندان واپس آنا شروع
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( عرفان ملک ) لاہور میں داعش کے تربیت یافتہ خاندان واپس آنا شروع ہوگئے، ایسے ہی مختلف خاندانوں کے پانچ سو افراد نے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، داعش کیلئے افغانستان اور عراق جنگ میں ان خاندانوں نے اپنے چاہنے والوں کی قربانیاں دیں۔

دولت اسلامیہ اور داعش کے نام سے جانی جانے والی دہشت گرد تنظیم کی جانب سے لاہور میں بھی تنظیم سازی کی گئی تھی جس میں مختلف علاقوں سے پڑھے لکھے افراد سمیت دیگر کو اس تنظیم کا حصہ بنایا گیا۔

چار سال قبل اس کہانی کا آغاز ہوا لاہور سے ایسے ہی خاندانوں میں جوہر ٹاؤن کی بشری چیمہ، وحدت روڈ کی فرخانہ اور ہنجروال کی ارشاد بی بی سمیت دیگر ایسی خواتین اور مرد شامل تھے جو اپنے کمسن بچوں، نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔

بہت دنوں کی تلاش کے بعد ایسا ہی ایک خاندان ملا۔ سرور بی بی کے ساتھ جانے والوں میں اس کا خاوند یعقوب، انیس سالہ بیٹا سلمان، سترہ سالہ فیضان، گیارہ سالہ عبدالرحمان، نو سالہ عبیدالرحمان، بیٹی عائشہ، شمائلہ، شمائلہ کا خاوند نعیم اختر اور اس کے دو سال سے سات سال کی عمر کے چار بیٹے بھی اس سفر میں شامل تھے۔ سرور بی بی کا کہنا تھا کہ افغانستان سے انہوں نے عراق کیلئے سفر کرنا تھا لیکن موسم کی شدت اور اتحادی فوجوں کی گولہ باری کے باعث آگئے نہ جاسکے۔

سرور بی بی نے بتایا کہ اس کا ایک بیٹا اتحادی فوجوں کے حملے میں ایک اور کسی پنجابی کیساتھ وہاں مارا گیا جس کی لاش بھی وہ دیکھ نہ پائیں۔ سرور بی بی کا کہنا ہے کہ اس کا خاوند موسم کی شدت اور گولہ باری کے باعث بیماری کا شکار ہوا اور ادویات کی کمی کے باعث وہ بھی دم توڑ گیا۔  ایک بیٹی اور داماد عراق کے شہر موصل میں مارے جا چکے ہیں جبکہ ایک بیٹی کی شادی گجرات سے آئے قاری زاہد سے افغانستان ہی کی گئی جس کو اتحادی فوجوں نے ہلاک کر دیا۔ عائشہ کی گود میں اب قاری زاہد کا شیر خوار بیٹا ہے جو اپنے والد کی وفات کے دو ماہ بعد پیدا ہوا۔

سرور کی ایک بیٹی کو اس کے خاوند نے قتل کیا جو بعد میں اسی قتل کیس میں طالبان کے ہاتھوں سزا کے طور پر مارا گیا, سرور بی بی کے کندھوں پر اب چار پوتوں کا بھی بوجھ ہے۔ سرور بی بی جیسے مختلف خاندانوں کے پانچ سو افراد لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہائش رکھے ہوئے ہیں جن کے کچھ فیملی ممبر حراست میں بھی لیے جاچکے ہیں۔

دوسری جانب حکومتی ایوانوں سے ہمیشہ اس بات کی نفی کی گئی کہ داعش کا پاکستان میں وجود نہیں ہے۔