ویب ڈیسک: پاکستان کی تاریخ کا پہلاغیر مطابقتی جگر ٹرانسپلانٹ کا کامیاب آپریشن، مریض اور جگر عطیہ کرنے والی بیٹی دونوں کی حالت ٹھیک ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق فیصل آباد کے رہائشی طارق اقبال شہزادہ کا سندھ کے ضلع خیر پورمیں پیر عبدالقادر شاہ جیلانی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز گمبٹ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر مطابقتی (abo- incompatible) طریقہ کار کے مطابق جگر کا کامیاب ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ آپریشن کے بعد ہوش میں آتے ہی طارق اقبال نے اپنی بیٹی کے بارے میں دریافت کیا۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ بیٹیاں لیتی کچھ نہیں بلکہ دیتی ہی ہیں۔ میری بیٹی نے بھی مجھے اپنا جگر دے کر میری جان بچا لی ہے۔ میں اس کا شکریہ ادا بھی کروں تو ادا نہیں کرسکتا۔
آپریشن ادارے کے شعبہ گمبٹ آرگن ٹرانسپلانٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر اور ان کی ٹیم نے کیا۔پروفسیر ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹرانسپلانٹ کے قوانین کے مطابق جسم کے کسی بھی حصہ کا عطیہ صرف قریبی عزیز اور خون کے رشتہ دار ہی کر سکتے ہیں۔
جانچ پڑتال ہوئی تو سب سے موزوں ان کی انٹرمیڈیٹ میں زیر تعلیم بیٹی زینب طارق کو پایا گیا۔ تاہم ابھی ہم نے خاندان والوں کو بتایا نہیں تھا کہ زینب کا جگر طارق کے لیے سب سے موزوں ہو گا۔ اس دوران زینب تنہا میرے پاس آئیں اور درخواست کی کہ اگر ان کے والد کو ان کا جگر لگایا جائے تو انھیں بے انتہا خوشی ہو گی۔پروفسیر ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر کا کہنا تھا کہ غیر مطابقتی آپریشن پاکستان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے جبکہ امریکہ اور یورپ میں یہ ٹیکنالوجی گذشتہ دس سال سے استعمال کی جا رہی ہے۔
غیر مطابقتی یا (abo- incompatible) ٹرانسپلانٹ کیا ہے؟
انسانی جسم میں موجود اینٹی باڈی یا قوت مدافعت باہر سے آنے والوں کے خلاف مدافعت کرتی ہے۔اسی وجہ سے ایسا بلڈ گروپ جو ملتا نہ ہو اس کو انسانی جسم قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ بلڈ گروپ نہ ملے تو پھر ٹرانسپلانٹ غیر مطابقتی طریقہ کار کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
پروفسیر ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر کے مطابق غیر مطابقتی طریقہ کار کے مطابق ٹرانسپلانٹ کرنے کے لیے انسانی جسم میں سے اینٹی باڈی یا قوت مدافعت مخصوص سطح تک کم کی جاتی ہے تاکہ وہ دوسرے بلڈ گروپ یا کسی اور کے جسم کا حصہ جس کا بلڈ گروپ نہیں ملتا، کو قبول کر لے۔
پروفسیر ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر کا کہنا تھا کہ اس عمل میں انھوں نے اپنے ادارے کے دیگر شعبوں کے ماہرین ڈاکٹر شہزاد سرور، ڈاکٹر روزنیہ، ڈاکٹر فرحان اور ڈاکٹر ندیم کی بھی مدد حاصل تھی۔
پروفسیر ڈاکٹر عبدالوہاب ڈوگر کے مطابق لیور ٹرانسپلائینٹ سے گزرنے والے ہر مریض کو ساری زندگی کچھ نہ کچھ لازمی ادوایات استعمال کرنا پڑتی ہیں اور طارق کو بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔
ان کا بلڈ گروپ تو او پازیٹو ہے مگر اب یہ ہو گا اگر انھیں زندگی میں کبھی خون میں سرخ خلیوں کی ضرورت پڑی تو او پازیٹو ہی لگے گا مگر انھیں سفید خلیے لگانے کی ضرورت پڑی تو یہ اے پازیٹو لگیں گے کیونکہ ان کو جگر عطیہ کرنے والی زینب کا خون کا گروپ بی پازیٹو ہے۔
خاندان کے تاثرات
طارق اقبال شہزادہ کی اہلیہ مسز طارق اقبال کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالوہاب جب آپریشن تھیڑ جارہے تھے تو انھوں نے ہمیں بہت تسلی دی اور جب وہ پنی ٹیم کے ہمراہ باہر آئے تو میں نے بظاہر اپنے آپ کو پر سکون رکھتے ہوئے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کیا ہوا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔ دو دو زندگیاں داؤ پر لگی ہوئیں تھیں۔ مجھے اور میرے بچوں کو ایسے لگا کہ ہماری گیارہ ماہ کی محنت، تکالیف اور پریشانیاں ختم ہو گئیں ہیں۔
زینب طارق کا کہنا تھا کہ گیارہ ماہ تک انھوں نے اپنے والد کی صحت کے لیے دن رات دعا کی۔ہر دعا پر اللہ سے کہتی تھی کہ پاپا کو میرا جگر لگ جائے۔ مجھے امید بھی تھی کہ پاپا کو میرا جگر لگے گا کیونکہ میں نہ صرف ان کی بہت لاڈلی ہوں بلکہ میری ہر چیز اور عادت پاپا ہی سے ملتی ہے۔میرے بھائی میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑتے۔ وہ سب خود کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر میں ان کی آنکھوں سے چھلکتے آنسو محسوس کر رہی تھی۔ مجھے کوئی خوف اور ڈر نہیں تھا ۔ پاپا کے لیے جگر کیا اگر اپنے جسم کا ایک ایک حصہ اور خون کا آخری قطرہ بھی دینا پڑتا تو میں ہنسی خوشی دے ۔