بزنس کلاس ائیر ٹکٹ پر ٹیکس 50 ہزار روپے کرنے کی تجویز منظور

Business Class Air Ticket Tax
کیپشن: Business Class Air Ticket Tax
سورس: City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (مانیٹرنگ ڈیسک) قائمہ کمیٹی نے بزنس کلاس کی انٹرنیشنل ایئر ٹکٹ پر ٹیکس بڑھانے کی حمایت کر دی۔

حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے وفاقی بجٹ پر کچھ تحریری اعتراضات موصول ہونے کے بعد سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں فنانس بل 2022-23 پر غور جاری ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کمیٹی نے بزنس کلاس کی انٹرنیشنل ایئر ٹکٹ پر ٹیکس بڑھانے کی حمایت کر دی، بزنس کلاس ٹکٹ پر ٹیکس 10 ہزار سے 50 ہزار روپے کرنے کی تجویز کمیٹی نے منظور کرلی۔

ایف بی آر حکام نے اس حوالے سے کہا کہ خود کو مراعات یافتہ طبقہ ظاہر کرنے والوں کو ٹیکس کا اضافی بوجھ اٹھانا چاہیے، اس لیے اب سے بزنس کلاس ٹکٹ پاکستان سے خریدنے پر 50 ہزار روپے ٹیکس ہوگا۔

سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ بزنس کلاس ٹکٹ پر ٹیکس 10 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کیا جائے۔

ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ ٹیکس ٹکٹ کی ویلیو پر نہیں بلکہ صرف ٹکٹ پر لگے گا جبکہ دیگر ایئر ٹکٹ کیٹگریز پر موجودہ ٹیکس برقرار رکھا گیا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے تمام 29 ہزار جیولرز کو مربوط پوائنٹس آف سیل (پی او ایس) کے ذریعے لازمی جنرل سیلز ٹیکس کی تعمیل میں لانے اور 23 لاکھ سے زیادہ پہلے درجے کے تاجروں کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹریشن نہ کرانے، پوائنٹ آف سیلز کے ساتھ لنک کرنے میں ناکامی پر ان کے بجلی اور گیس کنکشن منقطع کرنے کے اختیارات کی منظوری حاصل کرلی۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوئے اجلاس کو بتایا گیا کہ ملک میں 29 ہزار جیولرز ہیں لیکن صرف 22 رجسٹرڈ اور پوائنٹ آف سیلز کے ساتھ مربوط ہیں جو کہ امتیازی ہے۔

ٹیکس حکام نے کہا کہ تمام جیولرز یہاں تک کے چھوٹی دکانوں میں بھی کاروبار کرنے والے تاجر قیمتی اور مہنگی مصنوعات کی وجہ سے پہلے درجے کے تاجروں کے زمرے میں آتے ہیں اور سب کو سیلز ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا۔

ایف بی آر حکام نے بتایا کہ تقریباً 23لاکھ تاجر جن کی شناخت پہلے درجے کے تاجروں کے طور پر ہوئی ہے، اس وقت غیر رجسٹرڈ ہیں، ان پر 30 ہزار روپے ماہانہ بجلی کے بل کی بنیاد پر 3 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس عائد کیا جائے گا جو بل بڑھتے ہی 10 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس تک بڑھ جائے گا۔

ایف بی آر کے بورڈ کو نئے بجٹ کے تحت بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس کی شرح 50 ہزار روپے ماہانہ تک بڑھانے کا اختیار بھی دیا گیا ہے، اگر یہ بڑے تاجرایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ بجلی اور گیس کنکشن منقطع کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر حکام نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ کے بعض اقدامات بالخصوص ذاتی انکم ٹیکس سے متعلق تحریری اعتراضات اٹھائے ہیں جس میں قابل ٹیکس آمدنی کی حد کو 12 لاکھ روپے سالانہ تک بڑھا دیا گیا تھا اور زیادہ کمانے والوں پر انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ بڑے دوکانداروں کو ٹیکس ریلیف دیا جارہا ہے جو کہ سیاسی فیصلہ ہے، تنخواہ دار طبقہ کم آمدنی پر بھی زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔

جس پر چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ یہ فکس ٹیکس ہے جو پہلے بھی تھا اب اس کے ٹیکس ریٹ کو بڑھایا گیا ہے، ٹئیر ون ریٹیلرز کے علاوہ چھوٹے دوکانداروں پر ٹیکس ریٹ بڑھایا گیا ہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اس وقت دوکانداروں کو بڑی ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے، ایک خاص تناسب تک آمدن والوں پر ٹیکس لگایا جانا ضروری ہے۔

جس کے بعد کمیٹی نے ٹیئر ٹو دوکانداروں پر سیلز ٹیکس کے حوالے سے ایف بی آرسے  تفصیلی بریفنگ طلب کرلی۔الیکٹرک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کے معاملہ پر کمیٹی کے اکثریتی ارکان نے تمام  الیکٹرک گاڑیوں پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کی مخالفت کردی۔

کمیٹی ارکان نے 50 کلو واٹ تک کی گاڑی پر سیلز ٹیکس 12.5 فیصد برقرار رکھنے کی سفارش کی، جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ بڑی الیکٹرک گاڑیاں منگوائی جارہی ہیں ابھی چھوٹی گاڑیاں نہیں آرہی ہیں۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ امیر پر ٹیکس لگا کر غریب کو ریلیف دیا جائے کیوںکہ امیر کی وجہ سے کاروبار بڑھتا ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔