زیادہ سونا کتنا اہم ہے؟

زیادہ سونا کتنا اہم ہے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42:کہتے کہ جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے،اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو سوتا ہے وہ بہت کچھ پاتا ہے،اس تحقیق میں پتا چلا ہے کہ چھوٹی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں جو رات کے وقت زیادہ نیند سوتے ہیں وہ تبدیلی اور تناؤ کا مقابلہ بہترطریقے سے کرسکتے ہیں۔

تازہ تحقیق میں نوعمر افراد سے اس معاملے میں سوالات کرکے جوابات ڈھونڈ لیےہیں،اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ جن نوجوانوں نے بہتر نیندلی وہ ایسے افراد ہیں جو انتہائی لچکدار ہیں۔
اس تحقیق کو انجام دینے والے چینی محققین نے ان نوعمروں میں پرسکون ہونے کے اعلی نمونے پائے جنہیں بار بار اچھی طرح سے نیند آئی۔جلدی سونے والے اور زیادہ سونے والے دماغی طورپر بھی مضبو ط ملے۔

کم سونے والے اکثر پریشان اور سست ہوتے ہیں، تحقیق میں پتا چلا کہ جو کم عمر کم سوتے تھے وہ صلاحیتوں میں بھی سست ملے۔نوعمروں میں لچک کی پیمائش کی گئی تھی کیونکہ یہ ایک خاصیت ہے جس کی وجہ سے وہ تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں ایڈجسٹ ہوسکتے ہیں اور تناؤ کی اعلی سطحوں سے نمٹتے ہیں۔

نیند کے مطالعات میں اس کا اکثر جائزہ لیا جاتا ہے اور پچھلی تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اونچے درجے کی نیند کسی شخص کی لچک کو بہتر بنا سکتی ہے۔
جریدے نیند میڈیسن میں شائع ہونے والے اس مطالعے میں مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج طلباء کی لچک کو بہتر بنانے کے لئے نیند کے لئے مستقبل میں اسکولوں کی مداخلت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔


ہمارے جسم اور دماغ میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت نیند کے دوران ہوتی ہے اور ہم تازہ دم ہو کر بیدار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر نیند پوری نہ ہو تو مرمت بھی نامکمل رہتی ہے۔50 سال پر مبنی سائنسی تحقیق کے بعد نیند کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوال یہ نہیں کہ ’نیند کے فائدے کیا ہیں' بلکہ یہ ہے کہ 'کیا ایسی بھی کوئی چیز ہے جس کو نیند سے فائدہ نہیں پہنچتا'۔اب تک کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی جس کے لیے نیند کو مفید نہ پایا گیا ہو۔

یاد رہے دنیا بھر میں کورونا مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے،اب تک تینتالیس لاکھ سے زیادہ کیس سامنے آچکے ہیں،تین لاکھ کے لگ بھگ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں،سولہ لاکھ سے زیادہ صحتیاب بھی ہوچکے ہیں۔ کورونا نے کسی ملک کو معافی نہیں دی ،ایشیا کے گنجان آباد شہروں سے لے کر افریقہ کے جنگلوں تک سبھی کو متاثر کیا ہے۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer