ہم کورونا وائرس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

ہم کورونا وائرس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42 :پوری دنیا میں کورونا وائرس لوگوں کی معاشرت اور معیشت سے کھلواڑ کررہا ہے،لوگ ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں،وائرس کی ہلاکت خیزیوں نے دنیا میں دہشتگردی کم کرکے دہشت پھیلادی ۔دنیا بھر میں لاک ڈائون کے باعث سوشل میڈیا پر صارفین کے دلچسپ تبصرے  بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں،کوئی بوریت کا شکوہ کررہا ہے تو کوئی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا بہترین موقع۔کچھ لوگوں کو تو فیصل آبا د سے پیرس کا ایفل ٹاور دکھنے لگا ہے کچھ تو واشنگٹن کا لبرٹی سٹیچو بھی یہاں بیٹھے دیکھ سکتے ہیں،لاہور میں بیٹھے لوگ اسلام آباد کی فیصل مسجد کے نظارے کرتے نظر آتے ہیں،یہ تمام باتیں مذاق ہیں لیکن اس لاک ڈائون کے فوائد بھی ہیں اور نقصان بھی۔کچھ سوالات ہیں جو ہرایک ذہن میں ہوں گے۔

کیا ایک دوسرے سے گریز رکھتے ہوئے تعاون کی پالیسی دنیا کو نیا روپ دے گئی؟ کیا انسانی آبادی میں اضافہ بھی ایک ٹائم بم ہے؟ بحیثیت قوم ہم کورونا وائرس کے پیدا کردہ حالات سے کچھ سیکھنے کیلئے تیار ہیں؟ کیا موجود ہ صورتحال بھی نیشنل ایکشن پلان کی متقاضی ہے؟ کیا ان حالات سے بھی دہشتگردی کے خطرے کی طرح نمٹا جاسکتا ہے؟

اس سماجی فاصلے کا پہلا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کورونا وائرس سے پہلے کے جپھے کم ہوئے ہیں،فائدہ یہ ہوا ہے کہ بلاوجہ کے شادی بیاہ،فوتگی پر ہونیوالے خرچوں سے جان چھوٹی ہے،حکومت کو مستقل طور پر ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے خرچے کم ہوں،اب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پیسے میٹرو پر خرچ کرنے ہیں یا ہسپتالوں پر لگانے ہیں،صحت ،تعلیم کو بہتر کرنے کا موقع ہے۔میٹرو ٹرینیں ضرور بنائیں لیکن پہلے ہسپتال۔ماحولیاتی آلودگی کم ہونے سے زمین نے سکھ کا سانس لیا ہے،آسمان ،جانوروں نے شکر ادا کیا ہے۔

کورونا وائرس کے بعد بھی دنیا میں جھگڑے رہیں گے لیکن نوعیت بدل جائے گی،پاک بھارت سکیورٹی ایشو رہے گا لیکن کچھ نوعیت بدل جائے گی۔اس وقت تین کام بڑے زبردست ہورہے ہیں،ہمارا صحت کا نظام بہتر ہورہا ہے،ہسپتالوں کو مشینری مل رہی ہے،ہسپتالوں میں کام کرنے کا کلچر بدل رہا ہے،پورے ملک سے ڈیٹا مل رہا ہے جس کی بنیاد پر بہتر کام کیا جاسکتا ہے،دوسرا کام ملک میں غربت کے حوالے سے ہے،تمام صوبے ڈیٹا اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں،اسی ڈیٹا کی بنیاد پر مستقبل میں غربت کے خاتمے کیلئے آسانی ہوگی،تیسری بات جو ہے کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کیلئے قانونی سازی کو بہتر کرسکتے ہیں،کام کرنے کو بہت کچھ ہے۔انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں معاشرتی،معاشی ترجیحات کے ساتھ سیاسی ترجیحات بھی بدلنی چاہئیں،تاکہ جب ایسا کوئی وقت آئے تو مشکل پیش نہ آئے،ماضی میں سیاسی جماعتیں بڑے مسئلے پر اکٹھی نظر آئیں لیکن بدقسمتی سے اس بار ایسا نظر نہیں آیا،پہلی بار نظر آیا ہے کہ امیر اور غریب میں کتنا بڑا خلا ہے،لوگوں میں امداد کی تقسیم میں تصویر کا استعمال روکا جائے،یہ معاملہ تکلیف دہ ہے،پالیسیاں خوف کی بنیاد پر تبدیل نہیں ہوتیں سوچ ،بچار کی بنیاد پر بنتی ہیں۔پاکستان میں متوسط طبقہ ختم ہوکر رہ گیا ہے،جب تک انصاف نہیں ہوگا تب تک کچھ نہیں ہوگا۔ریاست کو اس معاملات میں ترجیحات دینا ہوں گی۔لوگ اسی وقت سیکھیں گے جب چیزوں کو ہائی لائٹ کیا جائے گا،منفی چیزیں بیان کی جائیں گی تو کیا حاصل ہوگا۔

اس وقت انسانوں کی خدمت اور فلاح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،انسان کی فلاح کی چیزیں بنانے کی ضرورت ہے،اس کیلئے ایک سوچ اور فکر کی ضرورت ہے جو ہمارے حکمرانوں کے پاس کمی ہے،جب تک ہم انسان کی عزت نہیں کریں تب تک انسان ریاست کی بھی عزت نہیں کریں گے۔جزیر وں سے نکل کر اپنے لوگوں کی حالت کے بارے میں سوچنا ہے،قدرت سے تعلق کے بارے میں نظر ثانی کرنی چاہئے،قدرت کے تحفوں کا خیال رکھنا ہوگا۔جب عوام اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے تو ان کو بھی ریاست سے سوال کرنے کا حق ہوگا۔

اب تک گندگی صاف نہیں کی گئی اس طرف بھی توجہ دینی ہوگی،ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے۔ہمیں امریکا جیسے ماڈل کو نہیں دیکھنا چاہئے،ہمیں کیوبا جیسے ممالک کے صحت کے  نظام کو دیکھ کر اپنی حکمت عملی اپنانی ہوگی، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک جیسے بابوئوں کی سوچ سے نکلنا ہوگا۔ہماری سماجی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے،فرسودہ روایات کو ختم کرنا ہوگا۔ہمارا ملک 40سال پہلے بہتر تھا ،دنیا آگے جارہی ہے اور ہمیں پیچھے دیکھنا پڑ رہا ہے،خلا میں آلودگی بہت تک ختم ہوچکی ہے،اوزون کی تہہ بہتر ہورہی ہے،قدرت خوش ہے تو اس کی خوشی کو مدنظر رکھ کر   ہمیں مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہئے۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer