پنجاب بیورو کریسی کا حب

پنجاب بیورو کریسی کا حب
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ ہے جو بیورو کریسی کا حب بن کر سامنے آیا ہے، پنجاب آنیوالا کوئی بھی افسر پنجاب سے باہر جانے کو تیار نہیں۔ پنجاب میں افسران کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے آج پنجاب سے باہر کسی بھی دوسرے صوبے میں نوکری نہیں کی اور وہ مسلسل ڈی ایم جی سروس کے مزے بھی لے رہے ہیں اور پنجاب میں ہی براجمان ہیں اور اگر کبھی وفاقی حکومت روٹیشن کی بنیاد پر ان کا پنجاب سے باہر تبادلہ کر دیتی ہے، تو یہ افسران اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر اپنا تبادلہ رکوا لیتے ہیں۔ 

جیسا کہ سیکرٹری انڈسٹریز کیپٹن (ر) ظفر اقبال کا وفاقی حکومت نے پنجاب سے بلوچستان تبادلہ کیا گیا لیکن سیکرٹری انڈسٹریز پنجاب کیپٹن (ر) ظفر اقبال نے یہ تبادلہ رکوا لیا اور وہ پنجاب سے باہر دوسرے کسی بھی صوبے میں جانے کو تیار نہیں۔ عمارہ خان، بینش فاطمہ ساہی، کنزیٰ مرتضی، کرن خورشید، نوشین ملک، کلثوم ثاقب، کوثر خان، ثمن رائے، عاتکہ محمود، عائشہ حمید، مسرت جبیں نے آج تک پنجاب سے باہر نوکری ہی نہیں کی اور جب سے سول سروس جوائن کی ہے تب سے وہ مسلسل پنجاب میں ہی نوکری کر رہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے ابھی تک ان کا بین الصوبائی تبادلہ نہیں کیا۔

 اب کئی سال بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہوش آیا ہے اور انہوں نے چاروں صوبوں میں دس سال یا اس سے زائد عرصہ مکمل کرنے والے افسران کی لسٹ طلب کی ہے۔ پنجاب حکومت نے روٹیشن کی بنیاد پر ڈی ایم جی افسران کی لسٹ تیار کر کے وفاقی حکومت کو مہیا کر دی ہے اور اب اگلے ماہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے دوسرے صوبوں میں کام نہ کرنیوالے افسران کو بلوچستان، گلگت بلتستان، کے پی کے اور سندھ بھیجنے کا پلان تیار کیا ہے، جس سے تحت پنجاب کے کئی افسران دوسرے صوبوں میں تبدیل کر دیئے جائیں گے اور خاص طور پر خواتین ڈی ایم جی افسران کو پنجاب سے باہر نوکری نہیں کی اور یہ کہ پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو عندیہ دیا ہے کہ اگر روٹیشن کی بنیاد پر ڈی ایم جی افسران کے تبادلے کئے گئے تو پنجاب اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا۔ پنجاب میں تعینات تمام کے تمام ڈی ایم جی افسران یا تو سرے سے دوسرے صوبوں میں گئے ہی نہیں اور اگر دوسرے کسی صوبہ میں گئے ہیں تو جلد ہی وہ واپس پنجاب تبادلہ کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ 

ڈی ایم جی افسران جو گریڈ سترہ میں بھرتی ہوتا ہے گریڈ بائیس تک ترقی پاتا ہے اور اس کی سروس کا یہ ضروری حصہ ہوتا ہے کہ وہ جب گریڈ اکیس اور گریڈ بائیس تک پہنچتا ہے اور وفاقی سیکرٹری لگتا ہے تو اسے چاروں صوبوں کی گرائونڈ حقیقت اور گرائونڈ حالات کا بخوبی علم ہونا چاہئے تاکہ وہ بہتر طور پر اسلام آباد میں بیٹھ کر پالیسیاں بنا سکے اور چاروں صوبوں کیساتھ بہتر کوآرڈینیشن کر سکے لیکن پنجاب میں اس فارمولے اور اس پالیسی پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ پنجاب کا کوئی ایک بھی افسر ایسا نہیں جس نے چاروں صوبوں یا کم از کم تین صوبوں میں نوکری کی ہو۔ یہ افسران سٹپنی کے طور پر پنجاب سے باہر دیگر صوبوں میں جاتے ہیں۔

  پنجاب میں کئی افسران ایسے بھی ہیں جنہوں نے آج تک لاہور سے باہر نوکری نہیں کی وہ لاہور میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور لاہور میں ہی بھرتی ہوئے اور لاہور میں ہی نوکری کر رہے ہیں۔ پنجاب میں افسران کو زیادہ تنگ نہیں کیا جاتا ہے اور انہیں گریڈ سترہ میں ہی گاڑی اور سرکاری گھر دے دیا جاتا ہے۔ ڈی ایم جی افسر کو گریڈ سترہ میں ہی پنجاب سول سیکرٹریٹ میں گریڈ اٹھارہ کی تقرری دی جاتی ہے اور جیسے ہی ایک ڈی ایم جی افسر گریڈ انیس میں پہنچتا ہے تو اسے گریڈ بیس کی سپیشل سیکرٹری کی سیٹ پر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ 

گریڈ اٹھارہ کے ڈی ایم جی افسر کو ڈی سی لگا دیا جاتا ہے اور کمشنر ڈی جی خان ساجد ظفرڈال گریڈ انیس کے افسر ہیں اور گریڈ بیس کی سیٹ پر تعینات ہیں یہ سہولت صرف ڈی ایم جی افسران کو حاصل ہے جبکہ پی ایم ایس افسران کو یہ سہولت نہیں دی جاتی ہے۔ بین الصوبائی تبادلے سے صوبائی ہم آہنگی آتی ہے اور وفاق مضبوط ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ ایک ہی صوبے میں مسلسل نوکری کرنے سے ان افسران کی پسند اور نا پسند پیدا ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو فوری طور پر پنجاب کے افسران کو کے پی کے، گلگت بلتستان، بلوچستان اور سندھ بھیجنا چاہیے اور سندھ اور پٹھان افسران کو پنجاب بھیجنا چاہیے تاکہ لوگوں کا آپس میں رابطہ بھی مضبوط ہو سکے اور سائلین کے مسائل بھی بہتر انداز میں حل ہوں، افسران کی روٹیشن سے جہاں افسران کا اپنا وژن بڑھتا ہے وہاں سروس کی فراہمی بھی بہتر ہوتی ہے

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر