(سٹی42)پاکستان میں صف اول کے معروف شاعر، دانشور اور محقق نصیر ترابی انتقال کرگئے۔ان کا شمار صفِ اول کے اردو شعراء میں ہوتا تھا جبکہ کافی عرصے تک کالمز بھی لکھتے رہے۔ان کی نماز جنازہ آج ادا کی جائےگی۔
تفصیلات کےمطابق اردوشعرو ادب کا ایک روشن چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بجھ گیا۔پاکستان کے معروف شاعر،دانشور اور محقق نصیر ترابی 75برس کی عمرمیں کراچی میں انتقال کرگئے۔ان کی نماز جنازہ آج ادا کی جائےگی۔سقوط ڈھاکا پر لکھی گئی معروف نظم 'وہ ہم سفرتھا‘ سےشہرت کی بلندیوں کوچھونےوالےنصیر ترابی معروف علمی، مذہبی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
نصیر ترابی 15 جون 1945ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد ہجرت کر کے انکے خاندان نے کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ وہ نامور ذاکر‘ خطیب علامہ رشید ترابی کے صاحبزادے تھے۔ 1968ء میں جامعہ کراچی سے تعلقات عامہ میں ایم اے کیا۔ انشورنس کمپنی میں ملازم رہے۔ 1962ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ پہلا مجموعہ کلام سن 2000ء میں ’’عکس فریادی‘‘ کے نام سے سامنے آیا۔ ’’شعریات‘‘ اور ’’لاریب‘‘ بھی انکی تصنیفات میں شامل ہیں۔ انہیں اکادمی ادبیات کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ بھی دیا گیا۔
نصیر ترابی نے پاکستان ٹیلی ویژن کےکئی مشاعروں میں نظامت کےفرائض انجام دئیے، ان کاشمارصفِ اول کےاردوشعراءمیں ہوتا تھا جبکہ کافی عرصےتک کالمزبھی لکھتے رہے۔پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے والی غزل/ وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی/ نصیر ترابی کی تخلیق تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ غزل انہوں نے 1971 میں کہی جس کا پس منظر سقوط ڈھاکہ تھا۔
2013میں شعریات کےموضوع پر کتاب تحریر کی جو مختلف اداروں نے سلیبس میں بھی شامل کررکھی ہے۔ان کے والدرشیدترابی بھی ملک کےمشہور ذاکروخطیبِ تھے۔