حافظ شہباز علی: ماؤنٹین آرچری ایک ایسا کھیل ہے جس میں ماہر گھڑ سوار کی طرح گھوڑے کی رفتار کو بھی کنٹرول کرنا ہے اور تیرکمان سے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بھی لگانا ہے۔ خواتین کی ماؤنٹین آرچری میں بھرپور دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔
سلطنت عثمانیہ دور کی عکاسی کرتے ترک ڈراموں نے پاکستانی قوم کو ایک عہد سے روشناس کرایا ہے۔ گھڑسواری اور تیر اندازی کا شوق انہی ڈراموں سے پروان چڑھا۔ ماؤنٹین آرچری کے کھیل میں ان دونوں کی مہارت درکار ہے۔
ماونٹین آرچری کلب میں خواتین مہارت کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر اپنے ہدف کو نشانہ بناتی ہیں۔ یہ کھیل دیکھنے میں جتنا آسان نظر آتا ہے، حقیقت میں اتنا ہی مشکل ہے۔ کھلاڑی نے گھوڑے کی رفتار کو بھی کنٹرول کرنا ہے اور نشانہ بھی ٹھیک ٹھیک لگانا ہے۔
اس کھیل میں دلچسپی لینے والی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال شوقیہ اس کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں، موقع ملا تو اسے کیرئیر بنانے کا بھی سوچیں گی۔ماؤنٹین آرچری کے کھیل میں بچے بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔پہلے مرحلے میں بچوں کو ماہر گھڑ سوار بننا ہے اس کے بعد تیرکمان سنبھالنا ہے۔