ایس ایچ او عامر شہزاد کی موت کا معاملہ، بھائی قیصر شہزاد کا اہم بیان  

Sho Amir shahzad,death,big statement,his brother,City42
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک) وزیر آباد حملے کے مدعی ایس ایچ او عامر شہزاد کی موت کے معاملے پر بھائی قیصر شہزاد کا بیان سامنے آگیا۔

 تفصیلات کے مطابق سابق ایس ایچ او وزیرآباد عامر شہزاد کے حقیقی بھائی قیصر شہزاد نے اپنے بھائی کی وفات کو مشکوک اور غلط رنگ دیئے جانے کو مسترد کر دیا ہے۔

مرحوم عامر شہزاد کی مدعیت میں عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ اس کی وفات کی خبر آنے پر سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے اکاؤنٹس سے موت کو غیر طبعی قرار دینے کے ٹویٹس کئے گئے۔ خود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی اپنے ٹویٹ میں سابق ایس ایچ او عامر شہزاد کی موت کو مشکوک قرار دے کر تحقیقات کا مطالبہ کر ڈالا۔

اب مرحوم عامر شہزاد کے بھائی قیصر شہزاد کا تحریری بیان سامنے آیا ہے جس میں سوشل میڈیا پر شروع کی گئی بحث کے برعکس اپنے بھائی کے وفات سے قبل کے تمام معمولات بیان کئے گئے ہیں۔
قیصر شہزاد کے مطابق ان کا بھائی "عامر شہزاد 9 اپریل کو بھدر، گجرات میں اپنے گھر آیا ہوا تھا کہ اچانک ہارٹ اٹیک ہونے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملا۔ میرا بھائی بالکل نارمل زندگی گزار رہا تھا، کسی ذہنی پریشانی کا شکار نہیں تھا، سٹی وزیرآباد کا ایس ایچ او تھا، ایک ماہ چھٹی پر فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ چھٹی ختم ہونے کے بعد اپنی خوشی و مرضی سے ایس ایچ او صدر وزیرآباد تعینات ہوا اور معمول کے مطابق جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دے رہا تھا"۔

قیصر شہزاد نے اپنے بیان میں بھائی عامر شہزاد کی وفات پر کسی قسم کے شک کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس حوالے سے کسی قسم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ 
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب لواحقین کے سامنے مرحوم عامر شہزاد کی ناگہانی وفات ہوئی اور ان سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا کہ موت غیر معمولی حالات میں ہوئی یا نارمل حالات میں۔ تو تحریک انصاف کے پاس مشکوک قرار دینے کا کیا جواز ہے؟ 
اہم سوال یہ بھی ہے کہ وزیرآباد واقعہ کے اصل حقائق تک پہنچنے کے لیے خود تحریک انصاف اور چیئرمین عمران خان کی جانب سے تفتیش میں صفر تعاون کیا گیا ہے۔

 واضح رہے وزیرآباد کے مرحوم ایس ایچ او عامر شہزاد کی مدعیت میں عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔