سٹی42: پاکستان کی عدالتی تاریخ کے منفرد مقدمہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی نے سیکشن 342 کا بیان ریکارڈ کروا دیا۔ بانی نے احتساب عدالت کے 79 سوالات کے جوابات گزشتہ روز دیئے تھے ، آج ان کے جوابات کی تفصیل سامنے آ گئی۔
سیکشن 342 کے بیان کے بعد بانی کی حد تک مقدمہ کی کارروائی مکمل ہو گئی ہے۔ بانی کے سوا تمام ملزم اس وقت مفرور ہیں۔ مقدمہ کی شریک ملزمہ بشریٰ بی بی ضمانت پر رہا تھی، انہیں مقدمہ کی ہر سماعت پر طریقہ کار کے مطابق حاضر ہونا تھا لیکن وہ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پشاور چلی گئیں اور وہاں سے عدالت کی سماعتوں مین حاضر نہیں ہوئیں، عدالت نے ان کے بھی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔
قیاس کیا جا رہا ہے کہ طریقہ کار کے مطابق بانی کا 342 کا بیان ریکارڈ ہونے کے بعد عدالت ملزمہ بشریٰ بی بی کو پی پی سی کی سیکشن 87 کے تحت پروکلیمڈ اوفینڈر قرار دے کر عمران خان کی حد تک مقدمہ کا فیصلہ کسی بھی وقت سنا سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کےبانی کے سامنے آنے والے 342 کے بیان میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف مقدمہ کا فئیر ٹرائل نہیں ہوا۔
بانی کے الفاظ میں، "جس طرح بھٹو ریفرنس میں فئیر ٹرائل نا ہونے کی نشاندہی سپریم کورٹ نے کی اس طرح میرے کیس میں بھی ہے." واضح رہے کہ آخری گواہ پر جرح کرنے کے لئے بانی اور ان کی شریک ملزمہ کے وکیلوں نے کم و بیش چار درجن مرتبہ وقت حاصل کیا اور جرح نہیں کی جس کے نتیجہ مین عدالت کو سماعتیں ملتوی کر کے نئی تاریخیں دینا پڑیں۔
بانی نے 342 کے بیان میں انگلینڈ میں انگلینڈ کی سرکاری ایجنسی کی طرف سے منی لانڈرنگ کا پیسہ ثابت ہونے کے بعد ریاستِ پاکستان کو منتقل کی جانے والی 190 ملین پاؤنڈ رقم کے ریاست پاکستان کے متعلقہ اکاؤنٹ کی بجائے سپریم کورٹ کے ایک اکؤنٹ مین منتقل ہو جانے کے واقعہ کے حوالے سے مؤقف اختیار کیا، "استغاثہ کے گواہ کے مطابق متعلقہ بنک نے اکاؤنٹ ہولڈر کی ہدایت پر سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی۔سٹیٹ آف پاکستان کو کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ وہ رقم سٹیٹ آف پاکستان کی نہیں تھی۔" تحریری بیان میں بانی نے مؤقف اختیار کیا، "استغاثہ کے گواہ القادر یونیورسٹی کے چیف فنانشل (افسر)نے بیان دیا، القادر یونیورسٹی کے مالی معاملات میں میرا کوئی لینا دینا نہیں."
بانی نے مزید کہا، پراسیکوشن کے اپنے ریکارڈ کے مطابق شہزاد اکبر اور ضیا المصطفی 6 نومبر 2019 کو پاکستان میں تھے۔ استغاثہ چھ نومبر 2019 کو ہی(انگلینڈ کے سرکاری تحقیقاتی ادارہ) این سی اے کے ساتھ کانفیڈنشل ڈیڈ کا دعویٰ کر رہا ہے ۔
بانی پی ٹی آئی نےالزام لگایا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف ، صدرِ مملکت آصف علی زرداری ، وزیر اعظم شہباز شریف ، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اے آر یو کا ریکارڈ نیب نے ضائع کر دیا ، وزیر اعلی مریم نواز ، وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا اے آر یو کا ریکارڈ بھی نیب نے ضائع کر دیا ۔
بانی نے اپنے سابق قریبی ساتھی اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلی اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کے حوالے سے الزام لگایا کہ " پرویز خٹک کو 9 مئی کیسز سے فری کرکے اسے میرے خلاف گواہ بنایا گیا ." بانی نے مؤقف اختیار کیا کہ سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی کابینہ کے اجلاس میں کوئی اختلافی نوٹ نہیں لکھا تھا۔
بانی نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب نے 2020 کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں یہ انکوائری بند کردی تھی ، چیئرمین نیب آفتاب سلطان بھی متفق نہیں تھے کہ یہ انکوائری دوبارہ کھولی جائے۔ پہلے انکوائری افسر یاسر رحمان کے مطابق بھی یہ کیس نیب آرڈیننس کے تحت نہیں بنتا تھا۔ مشرق بنک نے بھی یہی سپریم کورٹ کو بتایا یہ دو فریقین کا معاملہ تھا حکومت پاکستان اس میں پارٹی نہیں تھی۔
پی ٹی آئی کے بانی نے مؤقف اختیار کیا، "پراسیکوشن کے گواہ نے بتایا القادر ٹرسٹ سے میں نے یا میرے کسی فیملی ممبر رشتہ دار نے کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں لیا ."
بانی نے سیکشن 342 کے اپنے بیان مین یہ بھی الزام لگایا, "میرے دور میں مریم نواز کے خلاف کرپشن کیس چلا اس لئے اس کی تسلی کے لئے میری بیوی کے خلاف جھوٹا کیس بنایا گیا."
بانی پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا، " رجسٹرار سپریم کورٹ کی مداخلت کی وجہ سے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم منتقلی کا پراسس ہوا ۔ " انہوں نے الزام لگایا کہ استغاثہ کے گواہ اور تفتیشی افسر نے غیر قانونی طور پر کانفیڈنشل ڈیٹا تک رسائی لی۔ استغاثہ کے تیسرے گواہ اور تفتیشی افسر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ۔
بانی نے ایک اور الزام لگایا کہسابق وزیراعظم نواز شریف ، صدرِ مملکت آصف علی زرداری ، وزیر اعظم شہباز شریف ، سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کو فائدہ دینے کے لیے مسنگ فائل کا ڈرامہ کیا گیا ۔ انہوں نے اپنے بیان مین ان شخصیات کو ملنے والی کسی فائدہ کا ذکر نہیں کیا۔
بانی پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ "تین دسمبر 2019 کی میٹنگ میں وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر خزانہ موجود تھے جنہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا ." " فنانس ڈویژن کی رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہونے کے حوالے سے معلوم نہ ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔
انگلینڈ میں جس ملزم ملک ریاض کی 190ملین پاؤنڈ رقم منی لانڈرنگ ثابت ہونے کے سبب پاکستان کی ریاست کو بھیجی گئی تھی لیکن ریاست کو منتقل ہونے کی بجائے ملک ریاض کو سپریم کورٹ سے ہوئے خطیر رقم کے جرمانہ کی ادائیگی کی غرض سے سپریم کورٹ منتقل کر دی گئی تھی، اس ملزم سے کثیر اراضی اپنے بنائے ہوئے القادر ٹرسٹ کو منتقل ہونے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ "458 کنال زمین نہ مجھے نا میرے کسی فیملی ممبر کو ٹرانسفر ہوئی ." "جب تک (القادر)ٹرسٹ نہیں بنا تھا، (یہ) جگہ ذوالفی بخاری کے نام تھی، پھر القادر ٹرسٹ کے نام ٹرانسفر ہوئی۔ بانی پی ٹی آئی نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ ان کے وزیر اعظم کی حیثیت استعمال کرتے ہوئے یہ زمین حاصل کرنے کا کوئی ثبوت نہیں، ان کے تحریری بیان کے الفاظ کے مطابق انہوں نے کہا، " بطور وزیر اعظم القادر ٹرسٹ کی کوئی جگہ لینے یا ڈونیشن لینے کا نا کوئی گواہ نا کوئی ثبوت ہے ." بانی نے مزید کہا، غیر قانونی مالی فائدہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ 190 ملین پاؤنڈ یوکے اور پاکستان منتقلی کے حوالے سے کوئی سہولت نہیں دی۔
بانی پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ "اکاؤنٹ ہولڈرز نے آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کی اکاؤنٹ ڈی فریز کروا کے رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقلی کرائی .
اس خطیر رقم کی ریاست کو منتقلی کی بجائے ملزم ہی کے جرمانہ کی ادائیگی کے لئے استعمال کرنے کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے متعلق بانی نے مؤقف اختیار کیا کہ "کابینہ نے مشاورت کے بعد متفقہ منظوری دی. کابینہ کے فیصلے کو نیب میں تحفظ بھی حاصل ہے."