کس کا حکم مانیں اور کس کا نہیں؟ بلدیاتی ادارے کنفیوژن کا شکار

 بلدیاتی ادارے
کیپشن: Metropolitan Corporation MCL
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) کس کا حکم مانیں اور کس کا نہیں؟ بلدیاتی ادارے مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار، سپریم کورٹ کی جانب سے بحالی کے حکم کے بعد محکمہ بلدیات نے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، بل ادا ہو رہے ہیں اور نہ ہی دفاتر میں کوئی کام ہورہا ہے۔

بلدیاتی ادارے ابھی تک یہ ہی طے نہیں کر سکے ہیں کہ ان کا سربراہ کون ہے، وہ کس کا حکم مانیں اور کس کا نہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ بلدیات کی مسلسل خاموشی ہے۔ کئی اضلاع میں بلدیاتی نمائندوں نے چارج لے رکھا ہے، تاہم ابھی تک محکمہ بلدیات نے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا، نہ ہی نئی بھرتیاں ہو رہی ہیں اور نہ ہی محکمہ بلدیات کوئی سمری ارسال کر رہا ہے، ابھی تک یہ ابہام قائم ہے کہ کون سا بلدیاتی ایکٹ اس وقت کام کر رہا ہے، ضلع کونسل اور یونین کونسل بحال نہیں ہو سکی ہیں۔

دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس مسعود عابد نقوی نے سابق لارڈ میئر کرنل ریٹائرڈ مبشر جاوید سمیت دیگر کی درخواست پر سماعت کی۔ مبشر جاوید اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب پیش ہوئے۔

 درخواست گزاروں کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود بلدیاتی ادارے بحال نہیں کیے جارہے، عدالت سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنے اور بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم دے۔

 جواد یعقوب نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پراعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا ابھی تفصیلی فیصلہ جاری نہیں ہوا، عبوری حکم جاری کیا ہے، تفصیلی فیصلے کے بعد سرکار کے پاس نظر ثانی کا قانونی حق موجود ہے۔ 

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جواد یعقوب نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں نے لکھا ہے کہ ان کے پاس عدالتی حکم پر عمل درآمد کیلئے کوئی اور فورم موجود نہیں، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد عدالت عظمٰی میں توہین عدالت کی درخواست دائر کرسکتے ہیں، اگر پنجاب حکومت نے کوئی حکم عدولی کی ہے تو درخواست گزار سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔

عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی، جسٹس مسعود عابد نقوی نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزاروں کو سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ 

Sughra Afzal

Content Writer