(سیمل ہاشمی) پاکستان میں ہر ماہ کے آخر پر تیل کی قیمتوں میں کمی و بیشی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اکثر قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں، جس سے مہنگائی کا ایک نیا ریلا غریبوں کے لیے مصیبتوں کا پہاڑ کھڑا کر دیتا ہے۔ لوگ نئے سرے سے اپنے اخراجات کو ترتیب دیتے ہیں لیکن تیل مہنگا ہونے سے مہینے بعد یہ میزانیے بے کار ہو جاتے ہیں۔ تیل مہنگا ہونے کا مطلب شعبہ زندگی کی ہر چیز مہنگی، کبھی کبھار قیمتوں میں کمی کا اعلان اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہوتا ہے۔ اس سے مہنگائی کا گھومتا پہیہ نہیں رکتا۔ سوال یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں کا تعین ہر ماہ کی آخری تاریخ کو ہی کیوں کیا جاتا ہے؟
یہ پریکٹس گزشتہ ایک دہائی سے ہے، اس سے قبل قیمتوں میں اتار چڑھاﺅ سالانہ بجٹ میں دیکھا جاتا تھا۔شاید حکومتوں نے سالانہ بجٹ پر عوام کی طرف سے ردّ عمل سے بچنے کے لیے اس کا اجرا ماہانہ بنیادوں پر کرنے کا فیصلہ کیا ہو، تا کہ لوگ اس کے عادی ہو جائیں اور حکومتیں مسلسل تنقید سے بچ سکیں، لیکن یہ تھیوری ان لوگوں کی ہے، جو ہر ماہ پیٹرول بم کے نازل ہونے سے متاثر ہوتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں کا تعین عالمی ادارہ” اوپیک “کرتا ہے۔ اوپیک کی کامیابی اور ناکامی اپنی جگہ، لیکن سوال یہ ہے کہ اوپیک کی طے کردہ قیمتوں کا اطلاق پاکستان میں ہوتا ہے؟ اگر نہیں ہوتا تو یہاں تیل کی قیمتوں کا میکانیزم کیا ہے؟ یہاں اکثر یہ قیمتیں کیوں بڑھائی جاتی ہیں۔ اس سوال کے جواب کی تلاش میںہمیں اپنی معاشی صورتحال کو سامنے رکھنا ہو گا جو ہمہ وقت مشکلات کا شکار رہتی ہے۔جب کبھی اس اکانومی کو سہارا ملتا ہے،حکومت بدل جاتی ہے اور ہم پھر سے زیرو پر آ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ ایسا نہیں کہ ہم اپنی ایکسپورٹ بڑھا کر اپنی آمدنی میں اضافہ کر لیں۔ ساری جمع تفریق کر کے ایک ٹیکس رہ جاتا ہے جو ہم اپنے شہریوں پر لگا کر کاروبار حکومت چلاتے ہیں،ایسے میں عالمی سطح پر بھلے تیل کی قیمتوں میں کمی ہو جائے ،ہم اپنے ملک میں عالمی تناسب سے کمی کر کے اپنے ذرائع آمدنی کو کم نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں تیل کی قیمتوں کو عالمی قیمتوں سے نہ جوڑنے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ حکومت پاکستان کی آ مدنی کم ہو جاتی ہے اور معاملات چلانا مشکل ہو جاتے ہیں۔ہمارے پاس ہے ہی کیا جو ہم ایکسپورٹ کر کے کما سکیں۔اسی لیے تمام حکومتیں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اپنے کاروبار حکومت چلاتی ہیں۔گزشتہ دس برس کا جائزہ لیں تو صرف پی پی پی کی حکومت میں ایک مرتبہ پٹرول پچاس روپے لٹر ہوا تھا،ورنہ یہ قیمت ساٹھ سے سو روپے لٹر کے درمیان رہی ہے۔2016میں نواز شریف نے پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے فی لٹر کی کمی کی تھی۔ نواز شریف وہ خوش قسمت حکمران ہے جن کے دور میں عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 30 اور 40 ڈالر بیرل کے درمیان رہی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں عالمی ما رکیٹ میں تیل کی قیمت 120 ڈالر سے لیکر 130ڈالر بیرل رہی مگر نواز شریف کے دور میں اس تناسب سے تیل کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی تھی۔ابھی نگران دور میں بھی عالمی منڈی میں کمی ہونے کے باوجود یہاں اضافہ دیکھا گیا۔
نگران دور میں پیٹرول کی قیمت میں 7 روپے 54 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا تھا۔ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 14 روپے کا اضافہ ہوا تھا جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت 3 روپے 36 پیسے اضافے کے بعد 87.7 روپے فی لیٹر ہوئی تھی جب کہ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 5 روپے 92 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔عمران خان نے اپنے تین ماہ کے اقتدار میں دو مرتبہ اضافہ کیا ہے، پہلے اوگرا کی سفارش پر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ساڑھے 6 روپے فی لٹر تک اضافہ کیا۔ پٹرول 5 روپے، لائٹ ڈیزل 6 روپے 48 پیسے، ہائی سپیڈ ڈیزل 6 روپے 37 پیسے اور مٹی کا تیل 3 روپے فی لٹر مہنگا کیاگیا۔ پٹرول 97 روپے 83 پیسے فی لٹر کی نئی قیمت پر فروخت ہونا شروع ہوا۔ہائی سپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 112 روپے 94 پیسے، مٹی کا تیل 86 روپے 50 پیسے اور لائٹ ڈیزل 82 روپے 44 پیسے فی لٹر بیچا جانے لگا جب کہ ابھی حال ہی میں دو روپے لٹر کمی کا اعلان کیا گیا جب کہ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور غیر منصفانہ طریقہ کار رائج ہے۔ایک بیس ہزار کی ٹوٹی پھوٹی موٹر بائیک رکھنے والا مفلوک الحال شخص بھی پٹرول 95روپے لیتا ہے جب کہ لگژری گاڑی کا مالک بھی 95روپے کے حساب سے ہی پٹرول ڈلواتا ہے۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہمیشہ مہنگائی کا پیغام لے کر آتا ہے کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے تمام دیگر اشیاءکی قیمتیں خود بخود بڑھ جاتی ہیں خواہ ان کا پیٹرولیم مصنوعات سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ ٹرانسپورٹ سے نقل وحمل کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں جن کا اثر لامحالہ تمام اشیائے ضرورت پر پڑتا ہے۔ ہمارے یہاں اگر حکومت اپنے حصے کے منافع میں معمولی کمی کی قربانی دینے کو تیار ہو تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ایک جھٹکے میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں اور لیوی ٹیکس سے اربوں روپے اکٹھے ہو جاتے ہیں، اس کے باوجود یہ حکومتی اصرار بڑا دلچسپ ہوتا ہے کہ حکومت نے عوام کو پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں سبسڈی دی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے گھر کے کرایوں سے لیکر دال روٹی تک مہنگی ہو جاتی ہے۔ مٹی کے تیل کا استعمال انتہائی غریب طبقہ کرتا ہے اس کی قیمت میں اضافے سے ان کو بطور خاص مشکل ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا وفاقی بجٹ میں ایک ہی بار تعین کرے، بین الاقوامی منڈی میں اونچ نیچ کے فرق کو وصول ہونےوالے لیوی اور جی ایس ٹی سے پورا کرے۔ حکومت اپنے حصے کی تھوڑی سی قربانی دے تو ماہانہ بنیادوں پر عوام پر پیٹرول بم گرانے کی نوبت نہ آئے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ پیٹرولیم مصنوعات کی تقریباً پچاس فیصد پیداوار ملکی ہوتی ہے جس کی بھی حکومت بین الاقوامی منڈی کی مصنوعات کے برابر ہی قیمت وصول کرتی ہے جو سراسر غیر قانونی اور عوام پر ظلم ہے۔جہاں تک مفت تیل حاصل کرنے کا معاملہ ہے،اب تک سعودی عرب 3مرتبہ تیل اور سرمائے کی صورت میں امداد فراہم کر کے پاکستان کو ”بیل آڈٹ پیکیج“ دے چکا ہے۔ ماضی میں قطر اور متّحدہ عرب امارات نے بھی پاکستانی معیشت کو مشکلات سے نکالنے میں مثبت کردار ادا کیا، لیکن اس مدد سے پاکستانی عوام کبھی بھی مستفید نہیں ہوئے۔ تیل مفت بھی آجائے تو بھی یہاں یہ مصنوعات گراں نرخوں پر ہی بیچی جاتی ہیں۔ اگر ہم نے اپنے ملک کی معیشت کی ڈوبتی ناﺅ کو پار لگانا ہے تو ہمیں اپنی درآمدات کو کم کرنا ہو گا،تیل کا استعمال کم کرنے کی ضرورت ہے۔یہ ایک دو روپے کی کمی سب اچھا ہونے کی نشانی نہیں بلکہ بستر مرگ پر پڑی اکانومی کی وہ اطلاع ہے جس پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔