سٹی 42 : چین کے شہر شنگھائی میں 70 ہزار یادگاری اشیا پر مبنی ایک میوزیم قائم ہے جو کہ صرف ایک ہی شخص کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے اور وہ شخص ہیں چیان زیوسن جنھیں ’لوگوں کا سائنسدان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ چیان زیوسن چین کے میزائل اور خلائی پروگرام کے بانی ہیں اور انھیں قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ ان کی تحقیق کی مدد سے ہی چین نے ایسے راکٹ تیار کیے جن کی مدد سے چین کی سیٹلائٹ خلا میں جا سکی اور انھی کے بنائے ہوئے میزائل چین کے جوہری اسلحے میں شامل ہوئے۔
لیکن ایک اور سپر پاور ہے جہاں سے انھوں نے تعلیم حاصل کی اور جہاں انھوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ملازمت کی مگر اُس ملک میں انھیں برائے نام ہی کوئی جانتا ہوگا یا یاد کرتا ہے۔ چیان زیوسن کی پیدائش سنہ 1911 میں اس وقت ہوئی جب چین میں بادشاہت کا دور ختم ہونے والا تھا اور سلطنت، مملکت میں بدلنے والی تھی۔ان کے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ان کے والد نے، جنھوں نے پہلے جاپان میں نوکری کی تھی، بعد میں چین واپس آ کر وہاں نظامِ تعلیم کی بنیاد ڈالنے میں کردار ادا کیا۔
یہ تو بچپن سے ہی واضح تھا کہ چیان زیوسن ایک نہایت ذہین طالبعلم تھے اور اس کے بعد انھوں نے شنگھائی کی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی اور سکالر شپ کی مدد سے امریکہ کی میساچیوٹس انسٹٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں داخلہ حاصل کر لیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف نارتھ جیارجیا میں تاریخ کے پروفیسر کرس جسپرسن کہتے ہیں کہ جب سنہ 1935 میں چیان زیوسن امریکہ پہنچے تو انھیں شاید نسلی تعصب اور نفرت کا سامنا کرنا پڑا ہو لیکن بہت جلد ہی انھیں اس بات کی امید اور یقین ہو گیا تھا کہ چین اب بدلنے والا ہے اور وہاں کئی ایسے لوگ تھے جو چیان زیوسن سے متاثر ہو گئے تھے۔
خودکش دستوں نے امریکی فوج کی توجہ مبذول کرلی اور اس نے جیٹ کی مدد سے ٹیک آف کرنے کی تحقیق کے لیے فنڈ دیا تاکہ ایسی ٹیکنالوجی تیار کی جا سکے جس میں بوسٹرز کو طیاروں کے پروں سے جوڑا جائے تاکہ وہ مختصر رن وے سے پرواز کر سکیں۔ فوجی فنڈنگ نے سنہ 1943 میں تھیوڈور فون کارمان کی ڈائریکٹر شپ میں جیٹ پروپلزن لیب (جے پی ایل) کے قیام میں بھی مدد کی۔ فرینک مالینا کے ساتھ چیان اس منصوبے کے اہم رکن تھے۔
جنگ کے اختتام تک وہ جیٹ پروپلزن کے متعلق دنیا کے پہلے ماہر تھے اور انھیں تھیوڈور وان کارمن کے ساتھ لیفٹیننٹ کرنل کے عارضی عہدے پر فائز کر کے جرمنی بھیجا گیا۔ ان کا مقصد جرمنی کے ممتاز راکٹ سائنسدان ورنہر فون براؤن سمیت نازی انجینئروں کے انٹرویوز کرنا تھا۔ امریکہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ جرمنی کے سائنسدان آخر کیا جانتے ہیں۔لیکن اس دہائی کے اختتام پر امریکہ میں چیان کا شاندار کیریئر اچانک رُک گیا اور وہاں سے ان کی زندگی بدلنا شروع ہو گئی۔
کرس جیسپرسن کا کہنا ہے کہ چین میں چیئرمین ماؤ نے سنہ 1949 میں کمیونسٹ عوامی جمہوریہ کی تشکیل کا اعلان کیا اور جلد ہی امریکہ میں چینی شہریوں کو ’شر پسندوں‘ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اس طرح ہم امریکہ میں مختلف ادوار سے گزرتے ہیں جہاں ہمیں پہلے تو چین سے متاثر کیا جاتا ہے اور پھر کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم چین کو شیطان بنا دیتے ہیں۔
اسی دوران جے پی ایل میں ایک نئے ڈائریکٹر کو شبہ ہونے لگا کہ لیب میں جاسوسوں کا ایک گروہ ہے اور انھوں نے عملے کے کچھ ممبران کے بارے میں اپنے شبہات امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے ساتھ شیئر کیے۔سرد جنگ جاری تھی کمیونسٹ مخالف لوگوں کے شکار والا میکارتھی عہد بس آنے ہی والا تھا۔ اسی ماحول میں ایف بی آئی نے چیان، فرینک میلینا اور دیگر پر کمیونسٹ ہونے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہونے کا الزام عائد کیا۔
ایف بی آئی نے چیان کے خلاف الزامات امریکی کمیونسٹ پارٹی کے سنہ 1938 کے دستاویز کی بنیاد پر لگائے تھے جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ انھوں نے ایک معاشرتی اجتماع میں شرکت کی تھی جس کے بارے میں ایف بی آئی کو شبہ تھا کہ وہ پیساڈینا کمیونسٹ پارٹی کا اجلاس تھا۔ اگرچہ چیان نے پارٹی کا رکن ہونے سے انکار کیا لیکن نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اسی وقت اس میں شمولیت اختیار کی تھی جب فرینک میلینا سنہ 1938 میں اس میں شریک ہوئے تھے۔ ان سے سکیورٹی کلیئرنس چھین لی گئی اور انھیں نظربند کر دیا گیا۔ تھیوڈور فون کارمان سمیت کالٹیک کے ساتھیوں نے حکومت کو چیان کی بے گناہی کے متعلق لکھا لیکن سب بے سود ثابت ہوا۔
جب چیان کی نظر بندی کے پانچ سال ہو گئے تو سنہ 1955 میں صدر آئزن ہاور نے انھیں جلاوطن کر کے چین بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ سائنسدان چیان اپنی اہلیہ اور امریکہ میں پیدا ہونے والے دو بچوں کے ساتھ کشتی کے ذریعے روانہ ہوئے۔ انھوں نے منتظر اخباری نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ پھر کبھی امریکہ کی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے اور انھوں نے اپنا وعدہ نبھایا۔ چین میں چیان ہیرو کی طرح پہنچے لیکن فوری طور پر انھیں چینی کمیونسٹ پارٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔ ان کا ریکارڈ بہت پاک صاف نہیں تھا۔ ان کی اہلیہ ایک قوم پرست رہنما کی بیٹی تھیں جو کہ شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور امریکہ کی نظروں میں گرنے سے قبل تک چیان امریکہ میں خوشی خوشی زندگی گزار رہے تھے، یہاں تک کہ وہ شہریت کے لیے درخواست بھی دے سکتے تھے۔
جب سنہ 1958 میں وہ آخر کار پارٹی کے ممبر بنے تو انھوں نے اسے قبول کیا اور ہمیشہ حکومت کے طرف رہنے کی کوشش کی۔ وہ ثقافتی انقلاب کے مظالم سے بچ گئے اور اس طرح ایک غیر معمولی کیریئر بنانے میں کامیاب رہے۔جب وہ چین پہنچے تھے تو راکٹ سائنس کے بارے میں وہاں بہت کم سمجھ تھی لیکن 15 سال بعد انھوں نے خلا میں پہلی چینی سیٹلائٹ کو لانچ کرنے کی نگرانی کی۔ کئی دہائیوں کے دوران انھوں نے سائنسدانوں کی ایک نئی نسل کو تربیت دی اور ان کے کام سے چین کے اپنے ہی لوگوں کو چاند پر بھیجنے کی بنیاد پڑی۔
چیان نے جس میزائل پروگرام کی تیاری میں چین کی مدد کی اس کے نتیجے میں اسلحہ برآمد ہوا جو بعد میں امریکہ کے خلاف استعمال کیا گیا۔ سنہ 1991 کی خلیجی جنگ میں امریکیوں پر چیان کے بنائے ہوئے ’سِلک وارم‘ میزائل داغے گئے تھے اور سنہ 2016 میں یمن میں حوثی باغیوں کے ذریعے یو ایس ایس مشن کے خلاف ان کا استعمال ہوا۔
اگرچہ بیشتر امریکیوں کو چیان اور امریکہ کے خلائی پروگرام میں ان کے کردار کے بارے میں کوئی علم نہیں لیکن تیانیو فینگ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بہت سے چینی نژاد امریکی اور چینی طلبہ ان کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ کون تھے اور انھیں امریکہ کیوں چھوڑنا پڑا اور وہ اس میں موجودہ دور کے ساتھ مماثلت دیکھتے ہیں۔چیان کی زندگی تقریباً ایک صدی پر محیط رہی۔ اس دوران چین معاشی طور پر کمزور ملک سے زمین اور خلا میں ایک سپر پاور بن گیا۔ چیان اس تبدیلی کا حصہ تھے لیکن ان کی کہانی ایک عظیم امریکی شہری کی بھی کہانی ہو سکتی تھی جہاں کہیں کی بھی صلاحیت پھلتی پھولتی ہے۔
گذشتہ سال جب چین نے تاریخ رقم کی اور اس کا ایک مشن چاند کے دوسرے کنارے پر اترا تو فون کارمان دہانے پر اترا تھا جس کا نام اس ایروناٹیکل انجینیئر کے نام پر رکھا گیا تھا جنھوں نے چیان کو تیار کیا تھا۔ شاید یہ اس حقیقت کے اعتراف میں کیا گیا تھا کہ امریکہ کی جانب سے اشتراکیت کی مخالفت نے چین کو خلا میں جانے میں مدد کی۔