سٹی42: تہران میں حماس کے لیڈر اسمعیل ہنیہ کے قتل کے بعد پورے خطہ میں انتہائی خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے ۔
فلسطینیوں کی تنظیم حماس کے لیڈر اسمعیل ہنیہ کو بدھ کی صبح تہران میں قتل کر دیا گیا۔حماس کے سیاسی رہنما اسمعیل ہنیہ جو قطر میں مقیم تھے، پیزشکیان کی صدارتی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران کا دورہ کر رہے تھے۔ قاتلوں نے تہران میں ان کی اقامت گاہ پر حملہ کر کے انہیں شہید کیا۔ ایرانی ٹی وی نے سب سے پہلے اس اسیسینیشن کی اطلاع دی۔ فلسطینی تنظیم حماس نےبتایا کہ اس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کو "تہران میں ان کی رہائش گاہ پر شہید کر دیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ کہ چند آخری تصاویر
حماس کے لیدر اسماعیل ہانیہ منگل کے روز ایرانی صدر مسعود پیشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران پہنچے تھے۔
تہران میں اُن کے قتل سے قبل ان کی کئی تصاویر بنیں جن میں سے چند تصاویر یہاں پوسٹ کی جا رہی ہیں۔
جنگ کے پھیلنے کا خطرہ سنگین ہو گیا
تہران میں اسماعیل ہنیہ کا قتل، جہاں وہ نئے ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کر رہے تھے، ایک اور اہم اور خطرناک پیش رفت ہے جو مشرق وسطیٰ میں تشدد میں اضافے کے خدشات کو بڑھا سکتی ہے۔
تہران میں ہونے والی یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے بیروت میں حزب اللہ کے ایک کمانڈر پر حملے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی۔ اس کارروائی کے بعد لبنان کی حزب اللہ اور ایران کی ریاست دونوں کی جانب سے شدید ردعمل کا خطرہ ہے جس سے غزہ میں جاری جنگ جو اب لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ سرحدی نوعیت کی جھڑپوں تک محدود تھی اس کے مزید پھیلنے کا خطرہ ہے۔
اب تک اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی زیادہ تر پُرتشدد کارروائیاں دونوں مُمالک کی سرحد تک محدود رہی ہیں۔ تاہم اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ لڑائی ایک بڑے تنازعے کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور اس میں خطے میں ایران کے حمایت یافتہ دیگر گروہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
اب تک، اسرائیل اور حزب اللہ دونوں اطراف سے اشارے مل رہے تھے کہ وہ ایک مکمل جنگ میں شامل ہونے سے ہچکچا رہے ہیں، جس کے لبنان، اسرائیل اور پورے خطے کے لئے تباہ کن نتائج ہوسکتے ہیں۔ تاہم اسرائیل کے گولان کی پہاڑیوں کے علاقہ میں حزب اللہ کے پھینکے ہوئے راکٹ سے ایک فٹ بال گراؤنڈ میں موجود کئی بچوں کے مرنے کے بعد صورتحال میں بڑی تبدیلی آئی جس اب اسمعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بڑھ کر جنگ کے پھیلاؤ کے سنگین خطرہ کی شکل اختیار کر رہی ہے۔
ایران کے صدر مسعود پیزشکیان کا ردعمل
اسمعیل ہنیہ کے قتل کے واقعہ کے بعد ایران کے صدر نے کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اس بزدلانہ کارروائی پر افسوس کرنا پرے گا۔ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے کہا کہ وہ اسرائیل کو ہنیہ کے ’بزدلانہ‘ قتل پر بھرپور جواب دیں گے اور ایران ’اپنی علاقائی سالمیت، وقار اور وقار کا دفاع کرے گا۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر نے ہنیہ کو ایک ’بہادر رہنما‘ قرار دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای کا انتقام لینے کا اعلان
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لینا ’تہران کا فرض‘ ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیل جس نے اب تک ہنیہ کے قتل کی ذمہ واری قبول نہیں کی، نے ’سخت سزا‘ کی بنیاد فراہم کی ہے۔
ایران کی وزارتِ خارجہ کا ردِعمل
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے ہنیہ کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انھیں ’قابل فخر جنگجو‘ قرار دیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق کنانی کا کہنا ہے کہ ’ہنیہ کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ایران تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس ہلاکت سے ایران اور فلسطینیوں کے درمیان ’گہرے تعلق کو تقویت ملے گی۔‘
ہنیہ کا قتل’گھناؤنا جرم‘، قطر کا ردعمل
اسرائیل اور حماس کے درمیان مصالھت کاری کرنے اور حماس کی قیادت کو پناہ دینے والے قطر کی جانب سے اسمعیل ہنیہ کے قتل پر شدید مذمت کی گئی اور اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
دوحا میں قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کو 'گھناؤنا جرم اور بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا۔
بیان میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ’یہ قتل اور شہریوں کو مسلسل نشانہ بنانے کا لاپرواہ اسرائیلی رویہ خطے میں افراتفری کا باعث بنے گا اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچائے گا۔‘
اسرائیل کی خاموشی
اسرائیل نے ابھی تک تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پر کوئی درِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اسمعیل ہنیہ کے قتل کے بعد ایرانی قیادت کے بیانات پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔
بیروت اور غزہ میں حملے
تہران میں اسمعیل ہنیہ پر حملہ سے ایک دن پہلے بیروت میں اسرائیلی حملے میں دو بچوں سمیت تین افراد کے ہلاک اور 74 زخمی ہونے کی خبریں آئی تھیں۔ بتایا گیا تھا کہ اس حملے میں ٹارگٹ حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکر کو قرار دیا گیا تھا۔
اسی دوران غزہ کے قصبے مشرقی خان یونس سے مزید 42 لاشیں نکالی گئی ہیں غزہ میں فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی شہر میں اسرائیلی فوج کی نو روز سے جاری زمینی کارروائی کے دوران کم از کم 255 فلسطینی مارے گئے۔
غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں کم از کم 39,445 افراد شہید اور 91,073 زخمی ہو چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 7 اکتوبر کو حماس کی قیادت میں کیے گئے حملوں کے دوران اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا ان میں سے کئی درجن یرغمالی اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔
جب اسمعیل ہنیہ کے تین بیٹے غزہ میں مارے گئے، پوتے پوتیاں مارے گئے
دس اپریل 2024 کو شمالی غزہ میں اسرائیلی حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے مارے گئے تھے ۔ یہ مقدس تہوار عیدالفطر کے دن تھے جب اسرائیل کی فورسز نے اچانک بمباری کر کے ہنیہ کے بیٹوں کو نشانہ بنایا۔
الجزیرہ عربی کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ہنیہ نے بدھ کے روز اپنے بچوں حازم، عامر اور محمد کے ساتھ اپنے متعدد پوتے پوتیوں کے قتل کی تصدیق کی۔ خبر رساں ایجنسی شہاب نے اطلاع دی کہ حملے میں حماس رہنما کے کم از کم تین پوتے مارے گئے ہیں۔ہنیہ نے بتایا تھا کہ ان کی فیملی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ شاتی پناہ گزین کیمپ میں عید کے لیے رشتہ داروں سے ملنے جا رہے تھے۔
حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے اپنے پیاروں کی شہادت پر کہا تھا کہ شہیدوں کے خون اور زخمیوں کے درد سے ہم امید پیدا کرتے ہیں، ہم مستقبل بناتے ہیں، ہم اپنے لوگوں اور اپنی قوم کے لیے آزادی اور آزادی پیدا کرتے ہیں۔
خلیجی ریاست قطر میں مقیم ہنیہ نے کہا تھا اگر ان کے اہل خانہ اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا تو فلسطینی رہنما پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
اسرائیل کی فوج نے بعد میں تصدیق کی کہ اس نے ہنیہ کے تینوں بیٹوں کو نشانہ بنایا اور انہیں حماس کے فوجی کارکن بتایا جو غزہ کی پٹی کے مرکزی علاقے میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ اسرائیلی بیان میں حملے میں ہلاک ہونے والے پوتے پوتیوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔
بدھ کے روز، ہنیہ نے کہا کہ ان کے بیتوں کے شہید ہونے قطر میں جاری بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات میں حماس کی پوزیشن تبدیل نہیں ہوگی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حماس اپنے مطالبات کو واپس نہیں لے گی جن میں مستقل جنگ بندی اور بے گھر فلسطینیوں کی ان کے گھروں کو واپسی شامل ہے۔ میرے بچوں کا خون فلسطینی عوام کے بچوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں، فلسطین کے تمام شہداء میرے بچے ہیں۔