کورونا وائرس:28 ہزار ملازمین نوکری سے فارغ

کورونا وائرس:28 ہزار ملازمین نوکری سے فارغ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42: دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلائو نے معاشی،ماحولیاتی اور سماجی تبدیلی لائی ہے،اس وائرس کے باعث اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں،تین کروڑ سے زائد متاثر ہوئے ہیں،پاکستان سمیت کئی ممالک اس کا پھیلائو روکنے میں کامیاب رہے لیکن بھارت سمیت مختلف ممالک میں ابھی بھی پھیل رہا ۔اس وائرس نے کروڑوں افراد کی نوکریوں کو بھی چھین لیا ہے۔

 دنیا کا سب سے بڑا تھیم پارک ڈزنی لینڈ بھی کورونا وائرس سے  بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث ڈزنی لینڈ نے دنیا بھر میں اپنے تھیم پارکس بند کر دیے تھے لیکن کورونا وائرس میں کمی کے باعث اب مختلف ممالک میں پارکس آہستہ آہستہ کھلنا شروع ہو گئے ہیں تاہم کیلی فورنیا کا مرکزی تھیم پارک اب بھی بند ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈزنی لینڈ نے کورونا وبا کے باعث سیاحوں کی تعداد میں کمی کے پیش نظر 28000 ہزار ملازمین کو گھر بٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈزنی لینڈ انتظامیہ کی جانب سے بھی ملازمین کو فارغ کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ نکالے جانے والے ملازمین میں سے دو تہائی جزوقتی ملازمین ہوں گے۔
 

ڈزنی لینڈ تھیم پارکس یونٹ کے چیئرمین جوش ڈی امارو نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے اپنے پارکس، پروڈکٹس اور دیگر مقامات سے ملازمین کو چھٹی دینے کے انتہائی مشکل فیصلے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔


جوش ڈی امارو کی جانب سے نکالے گئے ملازمین کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ نے ملازمین کو نکالنے سے بچنے کے لیے اپنے اخراجات کم کیے اور پروجیکٹس بند کیے، کمپنی ملازمین کو اپریل تک صحت کی سہولیات بھی فراہم کرتی رہی لیکن ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ انتہائی محدود آپریشن کی اجازت ملنے کے باعث پورے اسٹاف کی ذمہ داریاں اٹھا سکیں۔

خیال رہے کہ فلوریڈا کے والٹ ڈزنی ورلڈ میں کل وقتی اور جز وقتی ملازمین کی تعداد 77 ہزار جب کہ کیلی فورنیا میں یہ تعداد 32 ہزار ہے۔ڈزنی نے اس کے علاوہ کنزیومر پروڈکٹس، کروز لائنس اور دیگر بزنس سے جڑے اپنے ملازمین کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔گزشتہ ہفتے ڈزنی لینڈ انتظامیہ نے کیلی فورنیا کی حکومت پر زور دیا تھا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر کامیاب رہی ہیں لہذا تھیم پارکس کو سیاحوں کے لیے دوبارہ کھولنے کی اجازت دی جائے۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer