چھ ججوں کے الزامات، وفاقی حکومت نے با اختیار انکوائری کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس منظور کر لئے

Terms of Reference, Judges allegations Enquiery Commission, Independence of Judiciary Enquiry Commission, City42, Justice Jilani
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر  با اختیارانکوائری کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس کی بھی منظوری دی۔

وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس میں جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا گیا۔  وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کی تشکیل کی منظوری دی اور سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ نامزد کر دیا۔ کابینہ کے اجلاس کے دوران ریٹائرڈ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی سے اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے حوالے سے ان کی رائے بھی لے لی گئی جس کے بعد کابینہ نے انکوائری کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) طے کئے اور ان کی منظوری دی۔

انکوائری کمیشن کا سکوپ

وفاقی کابینہ کے اس اہم اجلاس کا رسمی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز کی بھی منظوری دی جس کے تحت انکوائری کمیشن ججز کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں؟

اعلامیہ کے مطابق انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز میں یہ بھی شامل ہے کہ انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کیا کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟ کمیشن کو انکوائری کے دوران کسی اور متعلقہ معاملے کی بھی جانچ کرنے کا اختیار ہو گا۔

عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی تجویز کرنے کا اختیار

اعلامیہ کے مطابق انکوائری کمیشن تحقیق کرکے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔

کابینہ کی چھ ججز کے الزامات پر رائے 

 کابینہ نے 6 ججزکے خط میں ایگزیکٹو کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قراردیا اور کہا کہ دستور پاکستان میں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔

فل کورٹ اجلاس،  وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان نے دو مرتبہ فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا، پہلے فل کورٹ اجلاس کے بعد وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات کے بعد وزیراعظم کے قریبی ذرائع نے یہ بریکنگ نیوز دی تھی کہ وزیراعظم  اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط  میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

عدلیہ کی آزادی کا احترام

وزیراعظم شہباز شریف عدلیہ کی آزادی کا احترام کرتے  ہوئے اس اہم کنٹروورسی پر چیف جسٹس کی درخواست کردہ ملاقات کے لئے خود سی جے کے چیمبر میں گئے تھے۔ وہاں یہ رائے سامنے آئی کہ سپریم کورٹ چھ ججوں کے خط کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کے لئے انکوائری کمیشن کا قیام چاہتی ہے جو ایک غیر جانبدار سابق جج پر مشتمل ہو۔ وزیر اعظم نے اس رائے کا احترام کیا اور اسی اجلاس میں انکوائری کمیشن بنانے کے فیصلہ کا عندیہ دے کر واپس آئے۔

دوسرا فل کورٹ اجلاس اور کمیشن کے قیام کا رسمی اعلان

 اس اہم ملاقات کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوبارہ فل کورٹ اجلاس بلایا اور وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والی مشاورت سے اپنے ساتھی ججوں کو آگاہ کیا۔ اس اہم فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایگزیکٹو کی عدالتی کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور یہ کہ حکومت ایک انکوائری کمیشن تشکیل دے گی جو اعلیٰ عدلیہ کے غیر جانبدار سابق جج پر مشتل ہو گا۔