دعامرزا:صدر آل پاکستان پرائیوٹ سکول ایسوسی ایشن کاشف مرزا نے کل تمام پرائیویٹ سکولز میں آئی ایم ناٹ ملالہ ڈے منانے کی ہدایت جاری کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملالہ نے پاکستان مخالف جو مواد بھی لکھا ہے اسکی مخالفت کرتے ہیں۔
کاشف مرزا کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز تمام پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ بازوؤں پر کالا ربن باندھ کر آئی ایم ناٹ ملالہ ڈے منائیں گے جبکہ بچوں کو خصوصی لیکچر بھی دیئے جائیں گے۔ صدر آل پاکستان سکول ایجوکیشن فیڈریشن کاشف مرزا نے سکولز سربراہان کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملالہ نے پاکستان مخالف جو مواد بھی لکھا ہے اسکی مخالفت کرتے ہیں۔
ملالہ یوسفزئی 12 جولائی، 1997ء کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں پیدا ہوئی۔ ملالہ کا تعلق سنی مسلم خاندان سے ہے جو پشتون خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا نام ملالہ رکھا گیا جو ملال سے نکلا ہے اور وجہ تسمیہ میوند کی ملالہ تھی جو جنوبی افغانستان کی ایک مشہور پشتون شاعرہ اور جنگجو خاتون تھی۔ یوسفزئی اس کے قبیلے کو ظاہر کرتا ہے۔ ملالہ اپنے شہر مینگورہ میں اپنے دو چھوٹے بھائیوں، والدین ضیاء الدین اور تور پکئی اور دو پالتو مرغیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ سوات مشہور سیاحتی علاقہ ہے اور ایک بار ملکہ الزبتھ دوم نے یہاں کی سیر کی تھی اور اسے مشرق کا سوئٹزرلینڈ قرار دیا تھا۔
ملالہ کو پشتو، انگریزی اور ا اس کے علاوہ اردو پر بھی عبور حاصل ہے اور اس نے زیادہ تر تعلیم اپنے والد سے پائی ہے۔ ضیاء الدین یوسفزئی جو ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکولوں کا ایک سلسلہ یعنی چین آف اسکولز بھی چلاتے ہیں۔ ملالہ نے ایک بار ڈاکٹر بننے کی خواہش ظاہر کی تھی تاہم پھر اپنے والد کی رہنمائی میں سیاست دان بننے کو ترجیح دی ہے۔ ملالہ کے والد نے اپنی بیٹی کو خصوصی توجہ دی ہے اور جب دیگر بچے سو جاتے تھے تو ملالہ کو رات گئے تک جانے کی اجازت ہوتی تھی اور وہ لوگ سیاست پر بات کرتے تھے۔
9 اکتوبر، 2012ء کو جب ملالہ گھر سے اسکول امتحان دینے جانے کے لیے بس میں سوار ہوئی تو ایک مسلح طالبان نے اس پر حملہ کر دیا۔ نقاب پوش حملہ آور نے پہلے پوچھا کہ "تم میں سے ملالہ کون ہے؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں تم سب کو گولی مار دوں گا۔" جب ملالہ نے اپنا تعارف کرایا تو اس شخص نے گولی چلا دی۔ ملالہ کو لگنے والی گولی کھوپڑی کی ہڈی سے ٹکرا کر گردن سے ہوتی ہوئی کندھے میں جا گھسی۔ دیگر دو لڑکیاں بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں جن کے نام کائنات ریاض اور شازیہ رمضان ہیں تاہم دونوں کی حالت خطرے سے باہر تھی اور انہوں نے حملے کے بارے رپورٹرز کو بتایا۔
حملے کے بعد ملالہ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور کے فوجی ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں کو اس کے دماغ کے بائیں حصے کی سوجن روکنے کے لیے فوری آپریشن کرنا پڑا۔ یہ حصہ گولی لگنے کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔ تین گھنٹے طویل آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کے قریب سے گولی نکالی۔ حملے کے اگلے روز ڈاکٹروں نے اس کی کھوپڑی کی ہڈی کا کچھ حصہ ہٹا دیا تاکہ دماغ کی سوجن کے لیے کچھ جگہ پیدا ہو سکے۔
11 اکتوبر، 2012ء کو پاکستانی اور برطانوی ڈاکٹروں کے پینل نے فیصلہ کیا کہ ملالہ کو راولپنڈی کے فوجی ادارہ برائے امراض قلب منتقل کیا جائے۔ ایک ڈاکٹر ممتاز خان کے مطابق ملالہ کے بچنے کے امکانات 75 فیصد تھے۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ جونہی ملالہ کی طبعیت بہتر ہوگی، اسے جرمنی منتقل کر دیا جائے گا تاکہ بہترین طبی سہولیات میسر آ سکیں اور حکومتی اخراجات پر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اس کے ساتھ جائے گی۔ 13 اکتوبر کو ڈاکٹروں نے ملالہ کو سکون آور ادویات کی مقدار کم کر دی اور ملالہ اپنے ہاتھ پیر ہلانے کے قابل ہو گئی۔
دنیا بھر سے ملالہ کے علاج کی پیشکشیں آنے لگیں۔ 15 اکتوبر کو ملالہ کو ڈاکٹروں اور اس کے خاندان کی اجازت سے برطانیہ بھیج دیا گیا۔ اس کا جہاز دبئی ایندھن کے لیے رکا اور پھر اسے برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس ہسپتال کی ایک امتیازی خوبی جنگوں میں زخمی ہونے والے فوجیوں کا علاج بھی ہے۔
15 اکتوبر، 2012ء کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی خواندگی اور سابقہ برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے ہسپتال میں ملالہ کی عیادت کی اور ملالہ کے حق میں ایک قرارداد شروع کی جس کا عنوان تھا "میں ملالہ ہوں"۔ اہم مطالبہ یہ تھا کہ 2015 تک تمام بچوں کو اسکول کی سہولیات تک رسائی دی جائے۔
12 جولائی کو جب ملالہ کی 16ویں سالگرہ کے موقع پر ملالہ نے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے میں خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو ملالہ ڈے یعنی یوم ملالہ قرار دے دیا۔ حملے کے بعد یہ ملالہ کی پہلی تقریر تھی۔
10 اکتوبر، 2014ء کو ملالہ کو بچوں اور نوجوانوں کے حقِ تعلیم کے لیے جدوجہد پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر فرد ہے۔ اس اعزاز میں ان کے شریک انڈیا سے کیلاش ستیارتھی ہیں جو بچوں کی تعلیم کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن
گئی ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے اب تک دنیا بھر سے 40 عالمی اعزازات حاصل کیے ہے جو ان کی جرات و بہادری کا اعتراف ہیں۔ملالہ کو اقوام متحدہ اپنا خیر سگالی سفیر برائے امن بھی مقرر کرچکی ہے۔
پاکستان میں ملالہ یوسفزئی کی تقریباً 6برس بعد واپسی پر ایک بہت بڑا طبقہ جہان پر ان کا خیرمقدم کر رہا ہے دوسری طرف ایسے افراد کی کمی بھی نہیں جو اب بھی ان کی آمد کو کسی نہ کسی سازش سے جوڑ رہے ہیں۔