عرفان ملک: لاہور میں خاندانی دشمنیوں نے کئی گھر اجاڑ دئیے، یہ خاندانی دشمنیاں کیسے پروان چڑھیں، اس کے پس پردہ کیا محرکات ہیں اوراس سلسلے کو روکا کیوں نہیں جاتا، قصور وار کون ہے؟ میں آپ یا یہ معاشرہ؟
پولیس ریکارڈ کے مطابق شہرمیں پچاس بڑے ایسے خاندان ہیں جوخاندانی دشمنیوں کی آگ میں جل رہے ہیں، سٹی ڈویژن میں دس ایسے خاندان آباد ہیں جن کے بیالیس افراد زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، کینٹ ڈویژن میں سب سے زیادہ بائیس خاندانوں کے ابتک اڑتالیس افراد مارے گئے، صدر ڈویژن میں نو خاندانوں کے انتیس افراد، اقبال ٹائون ڈویژن میں سات خاندانوں کے پندرہ افراد موت کی وادی میں جا چکے ہیں۔
تقسیم برصغیر سے پہلے لاہور میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والے خاندان کے ابتک اٹھارہ افراد دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اوراب چوتھی نسل اس دشمنی کو پال رہی ہے۔ ہماری چوتھی نسل اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے، میرے دادا کو قتل کیا گیا جس کے بعد میرے والد پر دو حملے ہوئے اور تیسرا حملہ جان لیوا ثابت ہوا جو ہائی سیکورٹی زون میں انہیں قتل کیا گیا۔سکول ٹیچر کے بیٹے بھی دوسری نسل سے ایسی ہی خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جبکہ اسی گروپ کے بھی سولہ افراد قتل ہو چکے ہیں۔
میرے والد کو قتل کیا گیا اس کے بعد میرا بھائی مدعی بنا پھراس پرحملے ہوئے اور پھراسے بھی قتل کردیا گیا، ان خاندانی دشمنیوں کی وجہ چودھراہٹ کے ساتھ ساتھ سیاست بھی بنی، کسی کو پنچائتی فیصلہ نہ ماننے پر قتل کیا گیا تو کسی کو صرف اس بنا پر دشمنی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے سیاست میں قدم ہی کیوں رکھا۔ میرے والد سکول ٹیچر تھے جن کو قتل کیا گیا اوراس کے بعد بابربٹ نے الیکشن جیتا جس کا مخالفین کودکھ تھا، میرے دادا نے ایک پنچائتی فیصلہ کیا جس کو نہ مانا گیا اوربعد میں انہیں قتل کیا گیا جس کی وجہ صرف چودھراہٹ قائم کرنا تھا۔
دشمنی کا آغاز چاہے کسی بھی وجہ سے ہوا لیکن یہ دشمن دار آج بھی پولیس کے رویوں سے نالاں نظر آتے ہیں اور پولیس نظام کو ہی دشمنیوں کے طول کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
میرے والد کے قتل میں سابق آئی جی حبیب الرحمان نے ملزمان کو سزا ہی نہیں ہونے دی حالانکہ تمام شواہد بھی موجود تھے، پولیس تفشیش میں گنگہگار کو گنہگار لکھے تو ایسے واقعات جنم ہی نہ لیں۔ پولیس کے نظام میں خرابیاں اور سیاسی اثرورسوخ ہمیشہ سے رہا کہیں پیسے چلے تو کہیں تعلقات دشمن دار اپنے کندھوں پر پیاروں کی موت کا وزن اٹھائے آج بھی اپنے اپ کو بندوقوں کے سائے تلے محفوظ تو سمجھتے ہیں لیکن انکے دلوں میں بھی احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی نارمل انسانوں کی طرح آزاد گھوم سکیں۔
دشمن دار اپنے گھروں میں قید ہو کر زندگیاں گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، گاڑیوں میں بھی بندوقوں کے سہارے ڈھونڈتے ہیں اور ان دیکھے دشمن کو ان کی نظریں تلاش کرتی ہیں۔ میرا بھی دل کرتا ہے اپنے فیملی کو وقت دوں اورآزادانہ گھوم سکوں جیسا اپنے والد کی موت سے پہلے زندگی گزارتا تھا۔
ان خاندانی دشمنیوں کے نتیجے میں بیس سالوں میں تین سو سے ذائد افراد لقمہ اجل بنے پولیس تحقیقات ہوئیں پنچائتیں بھی لگیں لیکن یہ سلسلہ رک کیوں نہیں سکا، پولیس کے بڑے اس حوالے سے کیا موقف رکھتے ہیں چلیں انہی سے جان لیتے ہیں۔ پولیس کے بیانات اور کاوشیں اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق ان تمام دعووں سے مختلف ہیں، جس میں ابھی بھی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات ہوتے نظر نہیں اتے۔