فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلہ پر عمل کیا جائے، پشاور ہائیکورٹ کی عدلیہ میں مداخلت کیس میں تجاویز سامنے آ گئیں

Peshawar High Court, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری: سپریم کورٹ  کے حکم پر عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر از خود نوٹس  کیس میں  پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز بھی سامنے آگئیں ۔

 پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس بنچ کو جو تجاویز بھیجی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی جج حلف لیتا ہے تو کسی بھی قسم کا دباؤ نہ لینے کی قسم کھاتا ہے،جج کے حلف میں لکھا ہے کہ نہ دباؤ میں آئے گا نہ انصاف کی فراہمی میں ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی مداخلت برداشت کرے گا۔

 پشاور ہائیکورٹ  کے ججوں کا کہنا ہے کہ  آئینی معاملات میں ہائیکورٹ چیف جسٹس اور ججز پر مشتمل ہوتی ہے۔  ایسا کوئی ضابطہ نہیں جو انتظامیہ یا ریاستی اداروں کو ججز کے کام میں مداخلت کی اجازت دیتا ہو۔ صرف جوڈیشل کونسل ہائیکورٹ و سپریم کورٹ ججز کے خط کے ضابطہ اخلاق کی نمائندگی کرتی ہے۔ ججز کے ضابطہ اخلاق میں عدلیہ کے اندر ہونے والی مداخلت کی روک تھام کیلئے کوئی رہنمائی موجود نہیں۔

پشاور ہائیکورٹ  کے ججوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک کھلا راز ہے۔ سیاسی مقدمات میں ججز ایجنسیوں کی مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ ججز نے شکایات کیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کیلئے مداخلت کی۔

پشاور ہائیکورٹ  کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ " بات نہ ماننے کی صورت میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں". ججز کو دھمکیاں ملنے کے بعد معاملہ انسداد دہشتگری کے سامنے اٹھایا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی. ججز کو دھمکی ملنے کے معاملات اعلی سطح پر بھی اٹھائے گئے، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایجنسیوں کی سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت کی ممانعت کی گئی۔ 

 پشاور ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس بنچ  کو  تجویز  بھیجی ہے کہ اعلی عدلیہ کے جج کو ڈرانے دھمکانے سے روکنے کیلئے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہیے۔  ہائیکورٹس کو اس معاملے پر مربوط لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔  اگر ایک جج کو دھمکی ملتی ہے تو اسے متعلقہ چیف جسٹس کو آگاہ کرنا چاہیےْ تجاویز کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل اور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کو بھیجی جانی چاہیے۔

چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کو متاثرہ جج کی شکایت پر فوری ایکشن لینا چاہیے۔ جج کو ملنے والی دھمکی کی روک تھام کیلئے تمام اقدامات کیے جانے چاہیں۔ اگر ادارے ایسے معاملات میں تعاون نہیں کرتے تو اسے جوڈیشل سائیڈ پر لارجر بنچ کے ذریعے دیکھنا چاہیے۔

متعلقہ لارجر بنچ کو ان اداروں کیخلاف توہین عدالت کی کاروائی سمیت دیگر احکامات جاری کرنے چاہیں۔ ملوث خفیہ اداروں کے افسران کے خلاف فیصلہ دیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کو شکایت موصول ہونے کے فوری بعد اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ اگر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو انتظامی کمیٹی کے سامنے سات روز میں معاملہ رکھنا چاہیے۔ 

اگر انتظامی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس معاملے کی مزید انکوائری ہونی چاہیے تو مجوزہ طریقہ کار پر عمل ہونا چاہیے۔ ججز کے ضابطہ اخلاق میں ترمیم ہونی چاہیے۔ اگر چیف جسٹس یا انتظامی کمیٹی کے کسی ممبر جج کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو پھر ہائیکورٹ رولز کے تحت اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔